شاید اپنے پیروکاروں پر ان کی زبردست پکڑ ڈھیلی پڑ چکی ہے اور پارٹی کی اندرونی بغاوت نے بظاہر انہیں قیادت کے تخت سے اتار دیا ہے۔

مگر الطاف حسین، جن کا نام ہی ایم کیو ایم کے وجود کا دوسرا نام ہے، کو بے اثر سمجھنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ لندن میں مقیم ہو کر وہ اب بھی پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں اپنے حامیوں کے ساتھ رابطہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ 'خودکش جیکٹ‘ پھٹنے سے شدید زخمی تو ہوئے ہیں مگر حیات ضرور ہیں۔ یہ واضح طور پر لگتا ہے کہ 22 اگست کو جو کچھ بھی ہوا، وہ ایسی منظم منصوبہ بندی کا ایک حصہ تھا جو خود ایم کیو ایم کو ہی نقصان پہنچا گیا۔

پاکستان میں پارٹی قیادت نے بھلے ہی خود کو ان سے جدا کر لیا ہو اور پارٹی منشور سے بھی اپنے قائد کا نام مٹا دیا ہو، کہ جن کے فیصلے کو کوئی بھی چیلنج نہیں کر پاتا تھا، مگر گزشتہ تین دہائیوں میں ان کی شخصیت کے گرد عقیدتمندی کا جو ایک گھیرا بن چکا ہے اسے توڑنا انتہائی مشکل ہے۔

کوئی بھی شخص فاروق ستار سے، جو ایک تنی ہوئی رسی پر چل رہے ہیں، مکمل طور پر ہمدردی کرے گا۔ اگر وہ پاکستان میں موجود متحدہ قیادت کے درمیان اتحاد ٹوٹنے کے ڈر سے اپنے سابق رہنما کی ملک سے بغاوت پر ان کی کھلے عام مذمت نہیں کر پاتے تو اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی۔

اس کے پیچھے پارٹی کی عسکری ونگ کا بھی ڈر شامل ہے جسے براہ راست لندن سے کنٹرول کیا جاتا ہے اور وہ ونگ اب بھی اپنے قائد سے وفاداری کا عہد رکھتی ہے، بھلے ہی اسے حالیہ آپریشن سے شدید زک پہنچی ہے۔

دلچسپ طور پر پارٹی میں ہونے والی اپنی مخالفت، جس کے نتیجے میں ان سے قیادت چھین لی گئی، پر الطاف حسین نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، جس سے اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ یہ سب کچھ باہمی رضامندی سے کیا گیا ہے۔

بلاشبہ یہ بہت ہی حیران کن بات ہے کہ پاکستان میں موجود پارٹی قیادت جو اپنے قائد پر ہندوستان سے تعلقات کے الزامات تک کا بھی دفاع کرچکی تھی، وہ آخر راتوں رات اپنے قائد کے خلاف کس طرح ہو گئی۔ آخر معاملہ کیا ہے؟

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ جہاں پاکستان میں پارٹی تنظیم کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت ہوگی وہاں لندن آفس بیرون ملک پارٹی کے حلقوں میں اپنا کنٹرول جاری رکھے گا۔ اس کے علاوہ لندن آفس ایم کیو ایم کارکنان کے مبینہ ماورائے عدالت قتل اور ان کی جبری گمشدگی کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کے لیے اپنا جارحانہ مؤقف بھی قائم رکھے گا۔

امریکا اور جنوبی افریقا میں ایم کیو ایم کارکنان سے ٹیلی فون پر تازہ ترین پرجوش خطاب ان اندازوں کو تقویت بخشتا ہے۔

یہ انتظامات کچھ دنوں بعد شہر کے میئر کے لیے منعقدہ انتخابات میں پارٹی امیدوار کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری تھے۔

مہینوں پہلے الطاف حسین کی رضامندی سے نامزد کردہ وسیم اختر نے ایم کیو ایم کا ایک بھی ووٹ ضائع ہوئے بغیر انتخابات میں بھاری اکثریت سے باآسانی فتح حاصل کر لی۔

پاکستان میں موجود کمیٹی کے فیصلے کے خلاف لندن سے کسی قسم کا رد عمل پارٹی کو تقسیم کر دیتا اور اس طرح شہری حکومت حاصل کرنے کا موقع ہاتھوں سے نکل سکتا تھا۔

کراچی اور لندن کی کمیٹیوں کو علیحدہ کر دینے سے ایم کیو ایم ظاہری طور پر ممکنہ پابندی سے بچ گئی ہے۔ تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتیں ایسے کسی بھی اقدام کی مخالف ہیں جو پارٹی کی دھڑوں میں تقسیم کا باعث بن سکتا ہے، جس سے عسکریت پسندی مضبوط ہوگی۔

یقیناً کراچی میں جاری رینجرز آپریشن نے پارٹی کی عسکری ونگ کو مفلوج کر دیا ہے اور ماضی میں جس طرح وہ جلد ہی پورے شہر کو بند کر دیتے تھے، اب وہ اس صلاحیت سے بھی محروم کر دیے گئے ہیں۔ مگر پارٹی آج بھی شہر میں گہرائی تک قائم و دائم ہے اور زبردست ووٹ بینک رکھتی ہے جس کا مظاہرہ ہمیں مقامی حکومتوں کے انتخابات اور مختلف ضمنی انتخابات میں دیکھنے کو ملا۔

مصطفیٰ کمال کی قیادت میں پاک سرزمین پارٹی کے قیام سے شاید ایم کیو ایم کو تھوڑا نقصان پہنچا ہو مگر یہ شہر کی سیاست پر زیادہ اثر مرتب کرنے میں ناکام رہی ہے، جس کی وجہ یہ تاثر ہے کہ یہ پارٹی کراچی کی سیاست کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے بنائے گئے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔

ایم کیو ایم میں تازہ بحران کے نتیجے میں شاید چند مزید پارٹی چھوڑنے والے پی ایس پی کی حمایت کریں مگر اردو اسپیکنگ ووٹ بینک کی جانب سے ان کی حمایت ممکن نظر نہیں آ رہی۔ سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے اس قسم کے سیاسی حربے ماضی میں بھی ناکام ہو چکے ہیں۔

درحقیقت 22 اگست کے بعد رینجرز کا انتقامی ایکشن الطاف حسین کی مظلومیت کی سیاست کے لیے بڑا کارگر ثابت ہوا جس کا استعمال ماضی میں بھی الطاف حسین بڑے ہی شاطرانہ انداز میں کر چکے ہیں۔

ایم کیو ایم کے دفاتر کو کسی قانونی جواز کے بغیر سیل اور مسمار کرنے سے پارٹی میں موجود شدت پسندی کو بلاشبہ تقویت پہنچے گی۔ پریس کلب کے باہر فاروق ستار کو باوردی افسران کی جانب سے دھکے دینے اور جبراً رینجرز ہیڈ کوارٹرز لے جانے کے عمل کا جواز پیش کرنا انتہائی مشکل ہے۔

اسی طرح آصف حسنین کا کیس ایم کیو ایم چھوڑنے کے سلسلے کو بڑھانے میں سکیورٹی اداروں کے کردار پر سوال کھڑے کر دیتا ہے۔

وہ لانڈھی سے ایم کیو ایم کے ایم این اے تھے۔ اطلاعات کے مطابق انہیں رینجرز نے حراست میں لیا تھا اور رہائی کے بعد جلد ہی انہوں نے پی ایس پی میں شمولیت اختیار کر لی۔

کیا کوئی اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ آخر کس چیز نے اس طرح اچانک ان کے ضمیر کو جگا دیا؟ کراچی میں سیاسی جوڑ توڑ کے لیے سکیورٹی اداروں کی مداخلت سے الٹ اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔

یہ بات تو یقینی ہے کہ عمران فاروق کے قتل اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کی جانب سے ان کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات کی وجہ سے لندن میں ان کے گرد گھیرا تنگ ہونے کے بعد سے پاکستان میں موجود پارٹی قیادت کے سینئر ممبران اور لندن میں ان کے گرد موجود رہنماؤں میں الطاف حسین مخالف جذبات بڑھتے جا رہے ہیں۔

ان میں زیادہ تر نجی طور پر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ الطاف حسین اپنی بگڑتی ذہنی صحت کی وجہ سے ایک بوجھ بن چکے ہیں۔

ان کے جوش و جذبات سے بھرپور خطاب سے پارٹی کے ذی فہم عناصر کو کافی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور 22 اگست کے واقعے نے ان کے خلاف کھلی بغاوت کا موقع فراہم کیا۔ مگر باغیوں کے لیے اس اہم شخصیت کی ڈور کو کاٹنا اتنا آسان نہیں ہے جس ڈور نے ان سب کو ایک طویل عرصے سے باندھے رکھا ہے۔

ایک بات جو تشویش کا باعث بنتی ہے وہ یہ کہ ایم کیو ایم میں انتشار پیدا ہونے سے شہر اور خاص طور پر اردو بولنے والی کمیونٹی مزید احساسِ محرومی کا شکار ہو سکتی ہے۔

یہ خلا سکیورٹی اداروں کی حمایت یافتہ کسی سیاسی جماعت سے پُر نہیں ہوسکتا۔ ایسے تجربے ماضی میں ناکام ہوچکے ہیں اور اب بھی کارآمد ثابت نہیں ہو سکتے۔ کراچی کے پیچیدہ مسائل سیاسی تعمیر نو کے ذریعے حل نہیں ہو سکتے۔

سکیورٹی ادارے شہر میں پرتشدد واقعات اور جرائم کی تعداد میں کمی پر لازماً تعریف کے مستحق ہیں، اور قانون کو لازماً بلاامتیاز نافذالعمل ہونا چاہیے. مگر ان کے سیاسی جوڑ توڑ میں پڑنے سے صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔

قیادت میں موجود ایک یا چند افراد کے جرم کی بنا پر پارٹی پر پابندی عائد کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ الطاف حسین کا احتساب ضرور کیا جانا چاہیے مگر پوری پارٹی کی حب الوطنی پر سوال کرنا قابل مذمت ہے۔

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 31 اگست 2016 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں