تربت میں خاتون کی نظر بندی پر کراچی میں احتجاج

اپ ڈیٹ 12 ستمبر 2016
احتجاجی مظاہرے میں شریک خواتین—۔ فوٹو/ ڈان
احتجاجی مظاہرے میں شریک خواتین—۔ فوٹو/ ڈان

کراچی: بلوچستان کے شہر تربت میں ایک خاتون کو مبینہ طور پر گھر میں نظر بند کیے جانے کی رپورٹس کے بعد ایک ہیومن رائٹس گروپ کی جانب سے ایک ہفتے قبل شروع کیا جانے والا احتجاج اب کراچی تک پہنچ گیا۔

تربت میں اس حوالے سے متعدد احتجاجی مظاہرے کرنے والے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے ایک رکن غنی پرویز کے مطابق پولیس نے کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے ایک مشتبہ کمانڈر خلیل سچن کی اہلیہ بختاور کا موبائل فون ٹریس کرکے تربت کی ڈاکٹرز کالونی کے ایک گھر پر چھاپا مارا۔

غنی پرویز کے مطابق بختاور تربت کے قریب واقع ایک گاؤں ڈاگری کہاں سے اپنے نوزائیدہ بچے کے علاج کی غرض سے آئی تھیں اور ڈاکٹرز کالونی کے ایک گھر میں رہائش پذیر تھیں۔

انھوں نے مزید بتایا، 'فرنٹیئر کورپس (ایف سی) نے بختاور کا فون ٹریس کیا اور ایک ریٹائرڈ گورنمنٹ عہدیدار عبدالرؤف کے گھر پر چھاپا مارا جو وہاں اپنی اہلیہ اور 3 بچیوں کے ہمراہ رہائش پذیر ہیں، پولیس اور ایف سی نے وہاں بختاور سے مشترکہ تفتیش کی اور ان سے ان کے شوہر کی سرگرمیوں اور موجودہ ٹھکانے کا پوچھا، جس کے بارے میں انھیں کچھ علم نہیں تھا'۔

غنی کے مطابق اسی دوران 70 سالہ عبدالرؤف کو ایف سی نے گرفتار کرلیا، جنھیں اس کیس میں سہولت کار ہونے کی بناء پر شاملِ تفتیش کیا گیا۔

انھوں نے بتایا، 'جب ایچ آر سی پی کی جانب سے بنائے گئے فیکٹ فائنڈنگ مشن کی حیثیت سے ہم وہاں پہنچے تو ہمیں گھر کے اندر نہیں جانے دیا گیا اور وہاں سے جانے کو کہا گیا'۔

تربت سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی کے مطابق علاقہ مکین اس بات پر مشتعل ہوگئے کہ ایف سی اور پولیس نے ایک غیر مسلح خاتون سے تفتیش کی اور انھیں گھر میں نظربند کردیا۔

غنی پرویز کے مطابق جلد ہی یہ غصہ احتجاج میں بدل گیا اور خاتون کو گھر میں نظر بند کیے جانے کی خبر پھیلنے پر لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔

اسی طرح احتجاج کا یہ سلسلہ اُس وقت کراچی تک بھی آن پہنچا جب ہیومن رائٹس گروپ کی جانب سے ہفتے کو پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا گیا، جس میں مذکورہ گھر کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

دوسری جانب تربت میں ایک ایف سی عہدیدار کا کہنا تھا، 'گھر میں صرف 2 خاتون پولیس اہلکار تعینات ہیں اور ایک مرد اہلکار گھر کے باہر پہرہ دے رہا ہے، جبکہ کسی قسم کا محاصرہ نہیں کیا گیا'۔

انھوں نے مزید کہا، 'ہم نے اس سے پہلے بھی خواتین کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا اور اب بھی ایسا کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ ہم یہاں بلوچ بھائیوں کے لیے کام کرنے کے لیے موجود ہیں اور ہمارا بنیادی مقصد اُن دہشت گردوں کو گرفتار کرنا ہے جو صوبے میں ترقیاتی منصوبوں کے خلاف ہیں'۔

ایف سی عہدیدار نے مزید بتایا کہ، 'خلیل سچن بی ایل ایف کا ایک مشتبہ کمانڈر ہے، جس پر الزام ہے کہ اس نے گذشتہ برس تربت میں 20 مزدوروں کو قتل کیا'۔

ان کا کہنا تھا، 'ہمیں حال ہی میں اطلاع ملی کہ وہ تربت میں ہے اور پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے سے متعلق ایک ترقیاتی منصوبے کے خلاف منصوبہ بندی کر رہا ہے'۔

ایف سی عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ پولیس نے بختاور کے بیمار بچے کی دیکھ بھال کے لیے گھر پر ہی ایک ڈاکٹر کو بلوا لیا تھا۔

یہ خبر 12 ستمبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں