انقرہ: ترکی کے حکام نے امریکا میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن اور ان کے نیٹ ورک سے تعلقات کے الزام میں 12 ہزار 801 پولیس افسران کو ملازمت سے معطل کردیا۔

75 سالہ گولن کسی زمانے میں ترک صدر طیب اردگان کے قریبی اتحادی تھے، تاہم حالیہ چند برسوں میں اردگان ترک معاشرے، میڈیا، پولیس اور عدلیہ میں خودساختہ گولن تحریک کی طاقتور موجودگی کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ اقدام ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب ترکی کی وزارت داخلہ نے پولیس فورس کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کر رکھا ہے، جبکہ ترک حکومت نے ایمرجنسی کی مدت میں بھی مزید 3 ماہ کی توسیع کردی ہے۔

مزید پڑھیں:ترکی: ایمرجنسی کی مدت میں 3 ماہ کی توسیع

اس حوالے سے جاری ہونے والے سرکاری بیان میں کہا گیا کہ پورے ملک سے معطل کیے جانے والے پولیس افسران میں سے 2 ہزار 523 پولیس چیفس ہیں۔

ترکی کی کل پولیس فورس کی تعداد 2 لاکھ 50 ہزار ہے۔

رواں برس 15 اگست کو ترک صدر رجب طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے ملک میں جاری کریک ڈاؤن کے دوران فوج، سول سروس، پولیس اور عدلیہ میں سے ایک لاکھ افراد کو معطل یا فارغ کیا جاچکا ہے جبکہ 32 ہزار افراد کو بغاوت میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بغاوت کے بعد ترک آرمی چیف بازیاب،محفوظ مقام پر منتقل

گذشتہ ہفتے ترک صدر طیب اردگان کا کہنا تھا کہ ترکی کو ایمرجنسی کی مدت میں توسیع سے فائدہ ہوگا، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ذمہ داران کا تعاقب کرنے لیے مزید وقت کی ضرورت ہے، انھوں نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ ایمرجنسی ایک سال سے زائد بھی جاری رہ سکتی ہے۔

ترکی کی جانب سے اس کریک ڈاؤن پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور مغربی اتحادیوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے، جو سمجھتے ہیں کہ اردگان ناکام بغاوت کو مشتبہ کرد عسکریت پسندوں کے ہمدردوں کے خلاف کارروائی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

دوسری جانب ترکی نے امریکا سے مطالبہ کر رکھا ہے کہ وہ فتح اللہ گولن کو اس کے حوالے کردے، جن پر اردگان کی جانب سے حالیہ ناکام فوجی بغاوت کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ ترکی میں فوج کے باغی گروپ کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش اُس وقت ناکام بنادی گئی، جب صدر رجب طیب اردگان کی کال پر عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

طیب اردگان کا کہنا تھا کہ بغاوت کی کوشش محمد فتح اللہ گولن نامی دینی مبلغ کے پیروکاروں کا کام ہے۔

مزید پڑھیں:ترکی میں فوجی بغاوت کے خلاف ہوں، فتح اللہ گولن

فتح اللہ گولن پر ترکی میں غداری کا الزام لگایا گیا، جس کے بعد وہ 1999 میں امریکا منتقل ہوگئے اور امریکی ریاست پنسلوانیا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، گولن اپنے آبائی ملک میں خاصے مقبول ہیں اور انھیں پولیس اور عدلیہ کی بھی حمایت حاصل ہے۔

اردگان اور گولن کے درمیان اقتدار کی کشمکش 2013 کے آخر میں اُس وقت شدت اختیار کرگئی تھی جب گولن سے قریب محکمہ استغاثہ کے بعض افسران نے اردگان کے بیٹے بلال سمیت ان کے قریبی ساتھیوں پر بدعنوانی کے الزامات لگائے۔

یہاں پڑھیں:ترکی میں 20 ریڈیو اور ٹی وی چینلز بند

جس کے بعد طیب اردگان نے سرکاری ملازمتوں اور اہم عہدوں پر فائز گولن تحریک کے ہزاروں مبینہ حامیوں کو برطرف کردیا، ان کے اسکول بند کردیئے گئے اور سیکڑوں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے، جبکہ اُن اخبارات کے ایڈیٹرز کو بھی برطرف کردیا گیا، جو حکومت کے مطابق گولن کے حامی تھے۔

واضح رہے کہ فتح اللہ گولن کی تحریک 'حزمت' کہلاتی ہے، جو صوفی ازم کی طرز پر مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی تعلیم دیتی ہے، اس تحریک کے تحت امریکا، یورپ، ایشیا اور افریقہ میں سیکڑوں تعلیمی اور سماجی خدمات کے ادارے کام سرانجام دے رہے ہیں۔

ترک حکومت کی جانب سے گولن پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے 'ریاست کے اندر ریاست' قائم کر رکھی ہے اور ان کے حامیوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت صحافت، عدلیہ، فوج، پولیس اور بیوروکریسی میں اپنا حلقۂ اثر قائم کر رکھا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں