اسلام آباد: پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل اور خواتین کے ساتھ ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات سے جہاں ملک میں عورتوں کے تحفظ کے حوالے سے صورتحال تشویشناک ہے، وہیں گذشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں غیرت کے نام پر قتل اور انسداد عصمت دری کے 2 مختلف بلوں کی اتفاقِ رائے سے منظوری نے امید کی ایک نئی کرن پیدا کی ہے۔

پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے ایک بل میں غیرت کے نام پر قتل کو فساد فی الارض تصور کیا جائے گا اور مجرم قرار دیئے جانے والے شخص کو عمر قید سے کم سزا نہیں دی جاسکے گی۔ جبکہ دوسرے بل میں خواتین کے ریپ کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا گیا ہے اور عصمت دری کے مقدمات کا فیصلہ 3 ماہ میں سنایا جائے گا۔

مزید پڑھیں: پارلیمنٹ سے غیرت کے نام پر قتل، انسداد عصمت دری بل منظور

بعض قانونی ماہرین کی رائے میں یہ قوانین ملک میں غیرت کے نام پر قتل اور عصمت دری کے واقعات میں کمی لانے کے سلسلے میں انتہائی موثر ثابت ہوں گے۔

ماہرِ قانون سلمان اکرم راجہ کی رائے میں یہ ملکی تاریخ میں ایک اہم دن ہے اور ہم توقع کرسکتے ہیں کہ ایک طویل عرصے سے معاشرے کی جو افسوسناک صورتحال تھی اس میں اب کمی آسکے گی اور ان خواتین کو انصاف ملے گا جو ایسے واقعات کا شکار ہوتی ہیں۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ 'ماضی میں یہ ہوتا آیا ہے کہ بھائی اپنی بہن کو قتل کرکے بہت ہی فخر سے پولیس اسٹیشن جاکر جرم کا اعتراف کرلیتا تھا، کیونکہ اسے یہ معلوم تھا کہ اُس کا خاندان اُسے معاف کردے گا اور یہ کام صرف بھائی نہیں باپ بھی کررہے تھے، جبکہ قانون میں اس کی گنجائش ہونے کی وجہ سے عدالتیں بھی خود کو بےبس سمجھتی تھیں'۔

انھوں نے کہ 'یہ ایک خوفناک صورتحال تھی جو معاشرے اور عدالتی نظام کا حصہ بن چکی تھی، مگر اب یہ امید کی جاسکتی ہے کہ فساد فی الارض کے نفاذ سے عدالت اس بات کی پابند ہوگی کہ قتل کرنے والے کو کسی صورت بھی معاف نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کے اہلخانہ کو معاف کرنے کا حق حاصل ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے جو بل پارلیمنٹ میں منظور ہوا، اس سے معاشرے کو یہ واضح پیغام جائے گا کہ اب ایسا کرنا انتا آسان نہیں رہا جوکہ ماضی میں ہوا کرتا تھا۔

فساد فی الارض کی وضاحت کرتے ہوئے ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس کا بنیادی مقصد تو یہی ہے کہ مجرم کے گھر والوں سے اُسے معاف کرنے کا حق چھینا جائے اور یہ ایک اجتہاد کی مثال ہے جس کو موجودہ حالات میں پارلمنٹ نے ضروری سمجھا ہے۔

ملک میں غیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات میں اضافے کا اندازہ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے، جس کے مطابق سن 2015 کے دوران 1 ہزار 96 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا، جبکہ 2014 میں یہ تعداد 1 ہزار اور 2013 میں 869 تھی۔

خیال رہے کہ جمعرات 6 اکتوبر کو پارلمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دونوں بل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پیش کیے۔

اجلاس کے بعد وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل میں قصاص کا حق برقرار رکھا گیا ہے، تاہم قصاص کے حق کے باوجود عمر قید کی سزا ہوگی اور غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں اب پہلے کی طرح صلح نہیں ہوسکے گی۔

یہ بھی پڑھیں: غیرت کے نام پر قتل، انسداد عصمت دری بل اتفاق رائے سے منظور

انہوں نے بتایا کہ اب انسداد عصمت دری کا قانون متاثرہ خواتین اور مردوں دونوں کے لیے ہوگا، جبکہ انسداد عصمت دری کے واقعات میں درست تفتیش نہ کرنے والے پولیس اہلکار یا تفتیش میں رکاوٹ ڈالنے اور متاثرہ فرد کی شناخت ظاہر کرنے والوں کو 3 برس قید کی سزا ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ بچوں اور ذہنی و جسمانی معذور افراد کے ساتھ جنسی تشدد کے مجرم کو موت کی سزا ہوگی، جبکہ جیل میں عصمت دری کے مجرم کو بھی پھانسی اور جسمانی تشدد پر عمر قید کی سزا ہوگی۔

زاہد حامد نے بتایا کہ بل کے تحت زیادتی سے متاثرہ فرد کا طبی معائنہ اس کی رضامندی سے جبکہ ملزم کا طبی معائنہ لازمی قرار دیا گیا ہے، پولیس متاثرہ فرد کو قانونی حق اور تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہوگی، جبکہ متاثرہ فرد اور ملزم دونوں کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی ہوگا۔

واضح رہے کہ رواں سال جولائی میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی مشترکہ قائمہ کمیٹی نے غیرت کے نام پر قتل اور انسداد عصمت دری کے دو بل اتفاق رائے سے منظور کیے تھے۔

دونوں ایوانوں کی مشترکہ قائمہ کمیٹی کی جانب سے ان بِلوں کی منظوری معروف ماڈل قندیل بلوچ کے ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے بعد دی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں