اسلام آباد: افغان طالبان، افغان اور پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کے 3 سینئر ارکان نے حال ہی میں اسلام آباد میں پاکستانی عہدیداران سے متعدد ملاقاتیں کیں اور انھیں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قطر میں ہونے والے حالیہ مذاکرات کے بارے میں بریفنگ دی۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق پاکستان میں تعینات افغان سفیر حضرت عمر زاخیل وال نے بتایا کہ وہ ان ملاقاتوں کے بارے میں واقف ہیں تاہم انھوں نے تفصیلات بتانے سے معذرت کرلی۔

دوسری جانب افغان طالبان کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ ان کی تنظیم کے ارکان کو رواں ہفتے پاکستان بھیجا گیا۔

مذکورہ عہدیدار نے بتایا کہ جن ارکان کو بھیجا گیا، ان میں ملا سلام حنفی اور ملا جان محمد بھی شامل تھے جو طالبان کے دور حکومت میں سابق وزراء رہ چکے ہیں، جبکہ مولوی شہاب الدین دلاور سعودی عرب اور پاکستان میں سابق افغان سفیر رہ چکے ہیں۔

مزید پڑھیں:افغان حکومت اورطالبان میں ’خفیہ مذاکرات‘

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب گذشتہ دنوں اس حوالے سے رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ افغانستان میں قیام امن کی غرض سے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قطر میں 'خفیہ مذاکرات' کے نئے دور کا آغاز ہوگیا ہے۔

برطانوی اخبار گارجین نے رپورٹ کیا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان خفیہ مذاکرات کا سلسلہ ستمبر سے دوبارہ شروع ہوچکا ہے جبکہ بیشتر ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ اب تک مذاکرات کے دو دور قطر میں مکمل ہوچکے ہیں۔

برطانوی اخبار نے ایک طالبان رہنما کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں لکھا تھا کہ قطر میں ہونے والی ملاقاتوں میں ایک اعلیٰ امریکی سفارتی اہلکار بھی شامل تھے۔

مزید کہا گیا تھا کہ ان ملاقاتوں میں افغان طالبان کے ہلاک بانی ملامحمد عمر کے بھائی ملا عبدالمنان بھی موجود تھے۔

دوسری جانب افغان نیوز ویب سائٹ طلوع نیوز نے صدارتی محل ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ افغان انٹیلی جنس کے چیف محمد معصوم اسٹانکزئی اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر محمد حنیف اتمار نے بھی قطر میں ہونے والی ایک ملاقات میں شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں:افغان حکومت سے 'خفیہ مذاکرات' نہیں کیے: طالبان

تاہم طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں اس قسم کے مذاکرات یا ملاقات کی رپورٹس کو مسترد کردیا تھا۔

طالبان ترجمان نے اپنے بیان میں کہا تھا، 'امارات اسلامیہ کے نمائندوں کی اسٹانکزئی یا کسی اور عہدیدار سے ملاقات نہیں ہوئی، مذاکرات کے حوالے سے ہمارے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ہماری پالیسی اس حوالے سے بالکل واضح ہے'۔

واضح رہے کہ طالبان طویل عرصے سے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ غیر ملکی افواج کے افغانستان سے مکمل انخلاء کے بغیر وہ حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔

اس سے قبل پاکستان کی مدد سے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں کچھ پیشرفت دیکھی گئی تھی لیکن پھر امریکا کی جانب سے مئی میں کیے جانے والے ڈرون حملے میں طالبان رہنما ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد مذاکرات کا عمل مکمل طور پر رک گیا تھا۔

نئے طالبان رہنما ہیبت اللہ اخونزادہ کے معاملات سنبھالنے کے بعد گذشتہ چند ماہ کے دوران افغانستان میں ہونے والی طالبان کارروائیوں میں تیزی دیکھی گئی ہے۔

دوسری جانب امریکا کی طرف سے کابل کو مسلسل فضائی اور فوجی مدد فراہم کرنے کا سلسلہ جاری ہے تاکہ طالبان افغانستان میں اپنے قدم مضبوط نہ کرسکیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں