اسلام آباد: حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن)نے 2 نومبر کے دھرنے کو ناکام جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اسے کامیاب بنانے کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے شروع کردیے۔

ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے ٹیلی فونک رابطہ کیا جبکہ پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔

پاکستان پیپلز پارٹی میں موجود ذرائع کہتے ہیں کہ وزیر ریلوے نے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے ملاقات کے لیے وقت مانگا ہے جس میں وہ ملکی سیاسی صورتحال خاص طور پر عمران خان کے 2 نومبر کے دھرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کرنا چاہتے ہیں۔

تاہم خورشید شاہ نے کہہ دیا کہ وہ منگل تک اسلام آباد نہیں آسکتے کیوں کہ وہ پارٹی کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 2 نومبر کو نئے پاکستان کا فیصلہ ہوجائے گا:عمران خان

اس حوالے سے جب رابطہ کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے تصدیق کی کہ وزیر ریلوے نے خورشید شاہ سے رابطہ کیا تاہم انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے خورشید شاہ خود سکھر میں نیوز کانفرنس کے ذریعے میڈیا کو آگاہ کریں گے۔

دریں اثناء شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ انہوں نے ق لیگ کے رہنما سے ملاقات میں انہیں 2 نومبر کے دھرنے میں شرکت کی دعوت نہیں دی۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ پرویز الٰہی کے گھر ق لیگ کے انتخابات میں معاونت اور چوہدری شجاعت حسین کی صحت کے حوالے سے دریافت کرنے کے لیے گئے تھے۔

مزید پڑھیں:عمران خان اور جہانگیر ترین’ 2 نومبر‘ کو الیکشن کمیشن میں طلب

ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے پرویز الٰہی نے کہا کہ ’ملکی سلامتی اور قومی اداروں کی بقاء کے لیے ہر کسی کو عمران خان کی حمایت کرنی چاہیے‘۔

تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ 2 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج میں ق لیگ شرکت کرے گی یا نہیں۔

اس حوالے سے ق لیگ کے سینئر نائب صدر اجمل وزیر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کی جماعت نے 2 نومبر کے احتجاج کے حوالے سے پی ٹی آئی سے تفصیلات مانگی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ق لیگ اصولی طور پر عمران خان کے احتجاج کی کال کی حمایت کرتی ہے تاہم اس احتجاج میں شرکت کا فیصلہ پارٹی کی اندرونی مشاورت اور پی ٹی آئی کا اصل پلان جاننے کے بعد کیا جائےگا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور ق لیگ کے رہنماؤں کے درمیان آنے والے دنوں میں مزید ملاقاتیں بھی ہوسکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چوہدری شجاعت حسین کی طبیعت بہتر ہورہی ہے اور توقع ہے کہ وہ آئندہ ہفتے تک پاکستان واپس آجائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما لیکس: وزیراعظم سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری

واضح رہے کہ اس قبل بھی ق لیگ نے پی ٹٰی آئی کے احتجاج کی حمایت کی تھی تاہم اس نے رائے ونڈ مارچ میں شرکت سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ وہ کسی کے گھر کے باہر احتجاج کرنا مناسب نہیں سمجھتی۔

حکومتی ٹیم

دریں اثناء وزیر اعظم نواز شریف نے وزیر اطلاعات پرویز رشید اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں سے رابطے کریں اور پاناما پیپرز کی تحقیقات کے حوالے سے حکومتی موقف پر انہیں اعتماد میں لیں۔

حکومتی ٹیم کو اسلام آباد کو بند کرنے سے روکنے کے حوالے سے دیگر سیاسی جماعتوں سے ممکنہ لائحہ عمل پر بھی مشاورت کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کے بعد شریف خاندان اور دیگر پارٹی ارکان کو نوٹسز جاری کردیے ہیں اور وزیر اعظم نے سپریم کورٹ میں کارروائی کے آغاز کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپوزیشن سے درخواست کی تھی کہ وہ عدالتی فیصلہ کا انتظار کریں۔

تاہم پی ٹی آئی نے وزیر اعظم کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کردی تھی کہ وہ کسی ایسے شخص پر بھروسہ نہیں کرسکتے جو احتساب سے بچنے کے لیے پارلیمنٹ اور دیگر ریاستی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔

مزید پڑھیں:اسلام آباد بند کرنے کی دھمکی ’مجرمانہ عمل‘: خورشید شاہ

پی ٹی آئی چیئرمین نے اعلان کیا تھا کہ وزیر اعظم اور دیگر کو نوٹسز جاری ہونے کے باوجود اسلام آباد مارچ شیڈول کے مطابق ہوگا اور اس حوالے سے حکومت کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔

حکمراں جماعت میں موجود ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ حکومت کو یقین ہے کہ 2014 کی طرح اس بار بھی کوئی سیاسی جماعت اسلام آباد احتجاج میں پی ٹی آئی کا ساتھ نہیں دے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ن لیگ کے رہنما عمران خان کے اس بیان کو مثبت قرار دے رہے ہیں جس میں انہوں نے کہا کہ اسلام آباد بند کرنے کے بعد ہی وہ حکومت سے مذاکرات کریں گے کیوں کہ اس سے قبل تو عمران خان کا یہ کہنا تھا کہ وہ حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے اور نواز شریف کا استعفیٰ لے کر ہی اسلام آباد سے واپس آئیں گے۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ اگر وزیر اعظم اپوزیشن کے تجویز کردہ ٹی او آرز کے تحت پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے آمادہ نہیں ہوتے یا عہدے سے استعفیٰ نہیں دیتے تو وہ 2 نومبر کو اسلام آباد کو بند کردے گی۔

دوسری جانب مرکزی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی نے حکومت اور پی ٹی آئی دونوں پر حملے کررہی ہے، وہ نواز شریف پر الزام لگاتی ہے کہ وزیر اعظم پاناما لیکس کی تحقیقات میں تاخیر کرکے بحران کو مزید ہوا دے رہے ہیں جبکہ یہ بھی کہہ رہی ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت اسلام آباد کو بند کرکے ’مجرمانہ عمل‘ کی مرتکب ہوگی۔

پیپلز پارٹی کے رہنما واضح طور پر یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ عمران خان کے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں کہ نواز شریف کو خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا چاہیے تاہم وہ دارالحکومت کے گھیراؤ کے منصوبے کی حمایت نہیں کریں گے۔

یہ خبر 23 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی



تبصرے (0) بند ہیں