اسلام آباد: پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما شفقت محمود نے کہا ہے کہ اہم ترین خبر کے لیک ہونے پر صرف وفاقی وزیرِ اطلاعات سے استفیٰ نہیں، بلکہ اور لوگوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے جو اس میں ملوث تھے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'ان فوکس' میں گفتگو کرتے ہوئے شفقت محمود کا کہنا تھا کہ 'کبھی بھی ایک درباری اپنے بادشاہ کے حکم کے بغیر کام نہیں کرتا، لہذا پرویز رشید نے جو کچھ بھی کیا وہ وزیراعظم نواز شریف کے ہی کہنے پر کیا'۔

انھوں نے کہا کہ بظاہر تو خبر لیک ہونے کی براہ راست ذمہ داری وزیراعظم پر آتی ہے، لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شریف خاندان کے کچھ لوگ یا پھر وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان اس کام کے پیچھے ہوں'۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے اصل میں یہ کوشش کی ہے کہ شاید ایک وزیر کے استعفے سے دباؤ کی کیفیت میں کچھ کمی آسکے، لیکن جس طرح پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے کہا کہ کارروائی اور لوگوں کے خلاف بھی ہونی چاہیے جوکہ اس کا حصہ تھے۔

تحریک انصاف کے رہنما کا کہنا تھا کہ 'میں سمجھتا ہوں کہ جس خبر کو لیک کیا گیا وہ بھی سچائی کے برعکس اور من گھڑت تھی، کیونکہ ایسا کچھ اُس اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ہوا ہی نہیں'۔

انھوں نے کہا کہ پرویز رشید کے بارے میں تو خود حکومت تسلیم کر چکی ہے، اب اگر چوہدری نثار بھی اس میں ملوث تھے تو پھر ان کے خلاف بھی ایکشن ہونا چاہیے۔

شفقت محمود کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاؤں تو اس وقت ہی پھسل گئے تھے جب رواں سال اپریل میں پاناما لیکس کے انکشافات سامنے آئے تھے اور اسی لیے گذشتہ 7 ماہ سے یہ تحقیقات کروانے سے گریزاں ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'موجودہ حالات میں خود وزیراعظم نواز شریف پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ بن چکے ہیں، کیونکہ جس طرح کی خبر کو لیک کروایا گیا اُس سے صرف ایک ادارے کی ہی نہیں، بلکہ ملک و قوم کی بھی بدنامی ہوئی'۔

خیال رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر کی ابتدائی تحقیقات کے بعد گذشتہ روز وزیر اعظم نواز شریف نے کوتاہی برتنے پر پرویز رشید سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کا قلم دان واپس لے لیا۔

مزید پڑھیں: ڈان کی خبر کی تحقیقات:وزیر اطلاعات سے استعفیٰ لے لیا گیا

وفاقی حکومت کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ڈان میں چھپنے والی خبر کی آزادانہ تحقیقات کے لیے پرویز رشید سے وزارت واپس لی گئی۔

سرکاری اعلامیے کے مطابق حکومت کی جانب سے آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے سینیئر افسران پر مشتمل انکوائری کمیٹی قائم کی جارہی ہے جو الزامات اور اس کی وجوہات جبکہ اس کے ذمہ داروں کا تعین بھی کرے گی۔

یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں ایک اعلیٰ سطح کی سرکاری میٹنگ کے حوالے سے ڈان اخبار کے صحافی سیرل المیڈا کی خبر شائع ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ’شدت پسندوں کے خلاف کارروائی یا بین الاقوامی تنہائی‘

خبر میں کہا گیا تھا کہ اہم اجلاس میں حکومت نے انتہائی محتاط اور غیر معمولی طور پر واضح طریقے سے عسکری قیادت کو یہ پیغام پہنچادیا کہ عالمی سطح پر تیزی سے پاکستان تنہا ہورہا ہے جبکہ ریاستوں کی جانب سے کئی اہم معاملات پر کارروائیوں کے لیے اتفاق رائے کا بھی تقاضہ کیا گیا۔

تاہم وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے تین مرتبہ اس خبر کی تردید جاری کی گئی۔

دوسری جانب پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی زیرصدارت کور کمانڈرز کانفرنس میں وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اعلیٰ سطحح کے اجلاس سے متعلق جھوٹی اور من گھڑت خبر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کو قومی سلامتی کی خلاف ورزی قرار دیا گی تھاا۔

واضح رہے کہ یہ نئی پیشرفت ایک ایسے وقت میں ہوئی کہ جب 2 نومبر کو تحریکِ انصاف پاناما لیکس کی تحقیقات اور ملک سے کرپشن کے خاتمے کیلئے اسلام آباد میں دھرنا دینے کی تیاریاں کررہی ہے۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں