اسلام آباد: پاناما گیٹ کے تنازع نے 23 رکنی پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے مختلف نظریات رکھنے والے دو گروپس میں بھی اختلافات کے بیج بودیئے۔

گزشتہ روز عاصمہ جہانگیر گروپ کی حامی سمجھے جانے والے احسن بھون کی قیادت میں 13 ارکان کا اجلاس ہوا جس کا مقصد بظاہر حامد خان گروپ کے حامی سمجھے جانے والے بار کے وائس چیئرمین بیرسٹر فروغ نسیم کے اختیارات کم کرنا تھا۔

اجلاس میں کامران مرتضیٰ کو بار کا ترجمان مقرر کیا گیا اور انہیں اس بات کے اختیارات دیے کہ وہ کونسل کے نکتہ نظر خاص طور پر پاناما لیکس کے معاملے پر واضح طور پر سامنے لائیں۔

کونسل کے 217 ویں اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاناما گیٹ کے معاملے پر سخت موقف اختیار کیا جائے گا جبکہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما گیٹ پٹیشنز کی سماعت کے دائرہ اختیار پر گرما گرم بحث کے بعد سخت الفاظ پر مبنی قرار داد بھی منظوری کے لیے پیش کی گئی تاہم ایک رکن نے اعتراض اٹھایا کہ فی الحال قرار داد کو منظور نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ یہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: متحدہ سینیٹرپاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین منتخب

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک ایسی قرار داد جو کوئی ٹھوس قانونی دلیل نہ رکھتی ہو وہ بے سود ہوگی اور ملک میں وکلاء کے اعلیٰ ترین فورم کے لیے بھی باعث شرمندگی ہوگی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 26 نومبر کو اس حوالے سے باضابطہ طور پر اجلاس طلب کیا جائے جس کے لیے تمام ارکان کو شرکت کی دعوت دی جائے اور پاناما گیٹ کی تحقیقات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کی نوعیت اور وسعت کے حوالے سے تفصیلی بحث کی جائے۔

کونسل کے فعال رکن احسن بھون نے کہا کہ آفشور کمپنیوں کی صورت میں کرپشن کرنے والے سیاستدانوں کو پکڑنے سے پہلے عدلیہ کو پہلے اپنے ہی ایک رکن کے خلاف کارروائی کا سوچنا چاہیے جس کا نام پاناما اور بہاماس لیکس میں سامنے آیا ہے۔

واضح رہے کہ 3 ستمبر کو بھی بار کے اسی گروپ نے 25 جنوری 2016 کو وائس چیئرمین منتخب ہونے والے بیرسٹر فروغ نسیم کے خلاف بغاوت کی تھی کیوں کہ حامد خان گروپ ابھر کرسامنے آرہا تھا اور اس نئے اکثریتی گروپ نے کونسل کی تمام قائمہ کمیٹیاں تحلیل کردی تھیں۔

فروغ نسیم کو 12 جبکہ ان کے حریف سید امجد شاہ کو 11 ووٹ ملے تھے جنہیں عاصمہ جہانگیر گروپ کی حمایت حاصل تھی۔

مزید پڑھیں: 'عاصمہ جہانگیر کا لائسنس منسوخ کیا جائے'

اس بغاوت کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس نے 9 ستمبر کو تمام قائمہ کمیٹیوں کو تحلیل کرنے کے لیے دیا جانے والا حکم کالعدم قرار دے دیا تھا اور پی بی سی کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس مسئلے کو خود ہی حل کرے۔

اس فیصلے کو بعد میں سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا جہاں مستقبل قریب میں اس معاملے پر تین رکنی بینچ کی جانب سے سماعت متوقع ہے۔

بعد ازاں پی بی سی نے گزشتہ روز ایک اجلاس طلب کیا جس میں کامران مرتضیٰ کو بار کا ترجمان مقرر کیا گیا جبکہ اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ فروغ نسیم بطور وائس چیئرمین فرائض انجام دیتے رہیں گے تاکہ کونسل کی ساکھ برقرار رہے۔

تاہم فروغ نسیم نے ڈان کو بتایا کہ پی بی سی قوانین میں کونسل کے لیے ترجمان کی تقرری کے حوالے سے کوئی شق نہیں، انہوں نے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس اور اس میں کیے جانے والے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا۔

انہوں نے اس بات پر بھی حیرانی کا اظہار کیا کہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف جنہوں نے بطور چیئرپرسن پی بی سی قبل ازیں اس اجلاس کو اس لیے ملتوی کردیا تھا کہ معاملہ عدالت میں ہے لیکن اس اجلاس کو دوبارہ منعقد کرنے کی اجازت دے دی حالانکہ معاملہ اب بھی عدالت میں ہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: معزول ججوں کو بحال کیا جائے۔ پاکستان بار کونسل کی درخواست

فروغ نسیم نے بتایا کہ پی بی سی کی جو بھی رائے ہوتی ہے اسے ہمیشہ اس کے وائس چیئرمین کی رائے تصور کیا جاتا ہے لہٰذا پاناما گیٹ کیس کی سماعت کے حوالے سے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرنے کا فیصلہ اگر کیا جاتا ہے تو اس کے لیے انفرادی طور پر ایک وکیل کو درخواست دینی ہوگی کونسل کی جانب سے نہیں۔

دوسری جانب ترجمان مقرر ہونے کے بعد کامران مرتضیٰ نے صحافیوں کو بتایا کہ آج کے بعد فروغ نسیم جو بھی کہیں گے وہ ان کی ذاتی رائے ہوگی اور وہ کونسل کا نکتہ نظر نہیں ہوگا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے ایک رکن راحیل کامران شیخ کی جانب سے دائر کی جانے والی پٹیشن میں فریق بنے گی جس میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ 29 ستمبر کو اس اپیل کو خارج کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں جس میں سپریم جوڈیشل کونسل کو فعال کرنے اور عدالت عظمیٰ کے ججز کے خلاف ریفرنسز کی تعداد کو منظر عام پر لانے کی استدعا کی گئی تھی۔

اجلاس میں حال ہی میں لاہور میں ہونے والی وکلاء کانفرنس پر بھی ناراضی کا اظہار کیا جس میں بیرسٹر فروغ نسیم اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی ظفر نے بھی شرکت کی تھی جہاں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ منصور علی شاہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

یہ خبر 6 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں