اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کوہستان کے سیشن جج کو ویڈیو اسکینڈل میں 5 لڑکیوں سمیت 8 افراد کے مبینہ قتل کی مزید انکوائری کا حکم جاری کردیا۔

ان افراد کو 2012 میں عدالت کے ازخود نوٹس کی سماعت میں زندہ قرار دیا گیا تھا۔

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں اپیکس عدالت کے 2 رکنی بینچ نے سیشن جج کو ڈسٹرکٹ پولیس افسر( ڈی پی او) اور سینئر خاتون پولیس افسر کے ہمراہ جائے وقوع کے دورے کے احکامات جاری کرتے ہوئے انکوائری رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی۔

یاد رہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان کے ایک نوجوان نے 2012 میں میڈیا پر آکر یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کے 2 چھوٹے بھائیوں نے شادی کی ایک تقریب کے دوران رقص کیا، جس پر وہاں موجود خواتین نے تالیاں بجائیں۔

تقریب کے دوران موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو بعد میں مقامی افراد کے ہاتھ لگ گئی، جس پر مقامی جرگے نے ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیوں کے قتل کا حکم جاری کیا جبکہ بعد ازاں ان لڑکیوں کے قتل کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔

تاہم میڈیا پر یہ رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا، جس پر وفاقی اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے اس واقعے کی تردید کی، بعد ازاں سپریم کورٹ کے حکم پر کوہستان جانے والی ٹیم کے ارکان نے بھی لڑکیوں کے زندہ ہونے کی تصدیق کردی تھی۔

مزید پڑھیں: کوہستان ویڈیو اسکینڈل: 'پانچوں لڑکیوں کو قتل کیا جاچکا ہے'

ویڈیو میں دکھائی دینے والے لڑکوں میں سے ایک لڑکے کے بھائی محمد افضل کوہستانی نے قتل سے قبل بذریعہ میڈیا اپنے بھائی کی جان بچانے کی درخواست بھی کی تھی۔

قبائلی افراد کی جانب سے ویڈیو میں موجود لڑکوں اور لڑکیوں کو قتل کرنے کے احکامات جاری ہونے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد اپیکس کورٹ نے 2012 میں معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

افضل کوہستانی کے وکیل نے عدالت سے لڑکیوں کو طلب کرنے اور ان کیمرہ سماعت کرنے پر زور دیا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ افضل کوہستانی اپنے گھر سے بے گھر ہے اور اسے گھر دوبارہ لوٹنے پر جان سے مارے جانے کا خطرہ ہے، جبکہ علاقہ مکین کیس میں گواہ بننے کے لیے بھی رضامند نہیں۔

ڈی پی او کوہستان عبد المجید نے کورٹ میں پیش ہو کر ججز کو بتایا کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) کے رینک سے آگے کوئی خاتون پولیس افسر موجود نہیں۔

سماعت میں موجود ایک شخص حبیب الرحمٰن نے عدالت کو بتایا کہ اس کی بھتیجی آمنہ بی بی سمیت ویڈیو میں دکھائی دینے والی دیگر لڑکیاں بھی زندہ ہیں اور اپنے گھروں میں موجود ہیں۔

سماجی رہنما فرزانہ باری نے کورٹ میں پیش ہو کر عدالت کو بتایا کہ 5 لڑکیوں کو کورٹ میں نہیں پیش کیا گیا، فرزانہ باری نے استدعا کی کہ لڑکیوں کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ ان کے زندہ ہونے کی تصدیق ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں: کوہستانی لڑکیوں کا قتل، 'مارے جانے کے شواہد عدالت میں پیش'

تاہم وکیل صفائی غلام مصطفیٰ سواتی کا کہنا تھا کہ مقامی رواج کے مطابق لڑکیوں کو عدالت میں پیش کرنا بے عزتی سمجھا جاتا ہے۔

جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ کوہستان کے اکثر مقدمات میں، جن کی انہوں نے سماعت کی، خواتین بطور گواہ پیش ہوئیں۔

وکیل صفائی نے مزید کہا کہ 20 جون 2012 کے عدالتی حکم میں اضافی ثبوت فراہم کرکے مقدمہ دوبارہ کھولے جانے کا حکم درج ہے، مگر کئی سال گزرنے کے باوجود کوئی اضافی ثبوت فراہم نہیں کیے گئے۔

عدالت نے انکوائری کا حکم جاری کرتے ہوئے سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ اکتوبر میں سپریم کورٹ میں زیر سماعت کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے معاملے پر سماجی رضاکار فرزانہ باری نے لڑکیوں کے قتل سے متعلق شواہد پر مبنی دستاویزات اور ویڈیو عدالت میں جمع کرائی تھیں، جس کے مطابق جو لڑکیاں کمیشن کے سامنے پیش کی گئیں تھیں وہ ویڈیو میں نہیں تھیں۔

مزید پڑھیں: کوہستان کیس: چار لڑکیوں کے زندہ ہونے کی تصدیق

فرزانہ باری کی جانب سے پیش کی جانے والی دستاویز میں کہا گیا تھا کہ اس سے قبل بھی انہوں نے کمیشن کی رپورٹ سے اختلاف کیا تھا جبکہ مقامی جرگہ بھی پریس کانفرنس میں لڑکیوں کے قتل کا اعتراف کرچکا ہے۔

سماجی رضاکار نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ مقامی پولیس یا انتظامیہ سے معاملے کی انکوائری کرانا موثر ثابت نہیں ہوگا، مقامی انتظامیہ اور پولیس نے پہلے بھی معاملے کو غلط انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔

انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اگر لڑکیاں زندہ ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا جائے اور لڑکیوں کی شناخت کے لیے نادرا کے ماہرین کو بلایا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں