اسلام آباد: سپریم کورٹ میں زیر سماعت کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے معاملے پر سماجی رضاکار فرزانہ باری نے لڑکیوں کے قتل سے متعلق شواہد پر مبنی دستاویزات اور ویڈیو عدالت میں جمع کرا دیں، جس کے مطابق جو لڑکیاں کمیشن کے سامنے پیش کی گئیں تھیں وہ ویڈیو میں نہیں تھیں۔

فرزانہ باری کی جانب سے پیش کی جانے والی دستاویز میں ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی انھوں نے کمیشن کی رپورٹ سے اختلاف کیا تھا جبکہ لوکل جرگہ بھی پریس کانفرنس میں لڑکیوں کے قتل کا اعتراف کرچکا ہے۔

سماجی رضاکار نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مقامی پولیس یا انتظامیہ سے معاملے کی انکوائری کرانا مؤثر ثابت نہیں ہوگا، مقامی انتظامیہ اور پولیس نے پہلے بھی معاملے کو غلط انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔

انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اگر لڑکیاں زندہ ہیں تو انھیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا جائے اور لڑکیوں کی شناخت کے لیے نادرا کے ماہرین کو بلایا جائے۔

انھوں نے کہا کہ عدالت کے اس حکم سے لڑکیوں کے زندہ ہونے یا نہ ہونے کی حقیقت سامنے آجائے گی۔

مزید پڑھیں: کوہستان ویڈیو اسکینڈل: 'پانچوں لڑکیوں کو قتل کیا جاچکا ہے'

ایک سوال کے جواب میں فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ حکم دے گی تو مذکورہ لڑکیوں کو عدالت میں پیش کیا جاسکتا ہے لیکن اگر وہ زندہ ہوں، 'اگر خیبرپختونخوا کی خواتین بینظیر انکم سپورٹ کی رقم کے حصول کیلئے گھر سے باہر نکل سکتی ہیں تو انھیں عدالت میں لانے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے'۔

فرزانہ باری سے جب پوچھا گیا کہ انھوں نے ویڈیو میں دیکھائی جانے والی لڑکیوں اور کمیشن کے سامنے پیش کی جانے والی لڑکیوں کے مختلف ہونے کے حوالے سے کس طرح تصدیق کی تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے مذکورہ ویڈیو اور کمیشن کے سامنے پیش کی جانے والی لڑکیوں کی تصاویر کو ایک معروف ڈیجٹل کمپنی کو تصدیق کیلئے بھیجا تھا جنھوں نے واضح کیا ہے کہ دونوں مختلف لڑکیاں ہیں۔

واضح رہے کہ سماجی رضاکار کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی دستاویز کے مطابق اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ لڑکیاں زندہ ہیں تاہم بعد ازاں کوئی شخص ان لڑکیوں کے قتل کے حوالے سے ثبوت پیش کرے تو وہ مذکورہ کیس کی سماعت کا دوبارہ آغاز کرسکتے ہیں، تاہم ایسا نہ ہوسکا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل جن دو لڑکیوں کو کمیشن کے سامنے پیش کیا گیا تھا وہ لڑکیاں ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکیاں نہیں تھیں، جس پر انھوں نے اس موقع پر بھی اعتراض کیا تھا تاہم 'کمیشن کے دیگر اراکین نے میرے دعوے کی مخالفت کی، جس پر میں نے ان کی تصدیق کیلئے نادرا سے مدد لینے کا مطالبہ کیا تھا'۔

عدالت میں پیش کی گئی دستاویز کے مطابق فرزانہ باری کا ماننا ہے کہ مقامی انتظامیہ اور پولیس عوامی نینشل پارٹی کے اس وقت کے منتخب نمائندوں سے ملی ہوئی ہے جو مذکورہ کیس میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کا باعث ہیں۔

یاد رہے کہ فرزانہ بازی کے حالیہ دعوے کے برعکس ماضی میں میڈیا پر آنے والی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے کمیشن کا حصہ ہوتے ہوئے لڑکیوں سے ملاقات کے بعد ان کے زندہ ہونے کی تصدیق کی تھی۔

انھوں نے مزید بتایا تھا کہ ان لڑکیاں کے جسم پرتشدد کا کوئی نشان نہیں، فرزانہ باری نے یہ دعوی بھی کیا تھا کہ ٹیم نے لڑکیوں کی وڈیو بنائی ہے، تاہم وہ اپنے مذکورہ دعوے کے برعکس حال ہی میں دوبارہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئی ہیں۔

خیال رہے کہ 27 ستمبر 2016 کو سپریم کورٹ نے کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے معاملے کی حقیقت دوبارہ جاننے کے لیے خیبرپختونخوا حکومت اور ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) کوہستان کو نوٹس جاری کیا تھا۔

مذکورہ ویڈیو اسکینڈل کے حوالے سے سپریم کورٹ سے ایک مرتبہ پھر رجوع کیا گیا تھا، جس پر جسٹس اعجاز افضل کی سر براہی میں 2 رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی تھی۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ افضل کوہستانی نے موقف اختیار کیا کہ ڈانس وڈیو میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیوں کو قتل کیا جاچکا ہے، جبکہ ان کے موکل کے 3 بھائیوں کو بھی قتل کردیا گیا، انھوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ اَزخود نوٹس کیس کو دوبارہ کھولا جائے۔

یاد رہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کوہستان کے ایک نوجوان نے 2012 میں میڈیا پر آکر یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کے 2 چھوٹے بھائیوں نے شادی کی ایک تقریب کے دوران رقص کیا جس پر وہاں موجود خواتین نے تالیاں بجائیں۔

تقریب کے دوران موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو بعد میں مقامی افراد کے ہاتھ لگ گئی، جس پر ایک مقامی جرگے نے ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیوں کے قتل کا حکم جاری کیا جبکہ بعد ازاں ان لڑکوں کے قتل کی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں۔

تاہم میڈیا پر یہ رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا، جس پر وفاقی اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے اس واقعے کی تردید کی، بعدازاں سپریم کورٹ کے حکم پر کوہستان جانے والی ٹیم کے ارکان نے بھی لڑکیوں کے زندہ ہونے کی تصدیق کردی تھی۔

دوسری جانب اُس وقت کے کمشنر ہزارہ ڈویژن کا کہنا تھا کہ ویڈیو جعلی ہے اور اس طرح کا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا جبکہ مقامی سطح پر اس حوالے سے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا گیا تھا.

تبصرے (0) بند ہیں