قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کیلئے ایمنسٹی اسکیم سے متعلق ذیلی کمیٹی کی سفارشات کی منظوری کرلی ہیں، جس کے تحت 3 فیصد ٹیکس پر کالا دھن سفید ہوسکے گا اور ذرائع آمدن بھی نہیں پوچھے جائیں گے۔

کمیٹی کا اجلاس قیصر شیخ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا جس میں رئیل اسٹیٹ شعبے کیلئے ذیلی کمیٹی کی ایمنسٹی اسکیم سے متعلق سفارشات کی منظوری دی گئی۔

جس کے تحت 3 فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر کالا دھن سفید ہو سکے گا اور یہ 3 فیصد ٹیکس ڈی سی اور ایف بی آر ریٹ کے درمیان آنے والے فرق پر وصول کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

اجلاس کے دوران جائیداد کی قیمتوں کو مرحلہ وار 3 سے 5 سال میں مارکیٹ نرخ پر کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے، اسکیم سے فائدہ اٹھانے والی جائیداد کو قانونی حیثیت مل جائے گی۔

مزید پڑھیں: رئیل اسٹیٹ کیلئے ایمنسٹی اسکیم جاری کیے جانے کا امکان

کمیٹی نے میاں عبدالمنان کی سربراہی میں قائم ذیلی کمیٹی کی سفارشات منظور کرلی ہیں اور اب مجوزہ اسکیم کا مسودہ بل کی شکل میں قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

میاں عبدالمنان کہتے ہیں کہ ترسیلات زر کے 18 ارب ڈالرز میں سے 10 سے 11 ارب ڈالرز کی رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری ہوتی ہے۔

کمیٹی رکن رشید گوڈیل نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ایک دفعہ ایمنسٹی دی جانی چاہیے۔

چیئرمین ایف بی آر نثار محمد خان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں جائیداد کی قیمتوں پر نظر ثانی کریں گے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اب بھی جائیداد کی قیمتیں مارکیٹ ریٹ سے کہیں کم ہیں۔

گذشتہ روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس رکن قومی اسمبلی عبدالمنان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا تھا جس میں رئیل اسٹیٹ شعبے کے نمائندوں کی جانب سے ایک فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر کالا دھن سفید کرنے کیلئے ایمنسٹی اسکیم جاری کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں میں 70 فیصد اضافہ

تاہم ذیلی کمیٹی نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے متعلق تجاویز تیار کرلیں تھی جس کے تحت جائیداد کی ڈی سی اور ایف بی آر ریٹس کے درمیان فرق پر 3 سے 4 فیصد کی شرح سے ٹیکس لگانے اور مرحلہ وار جائیداد کی قیمتوں کو مارکیٹ نرخوں پر کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ عام طور پر صوبوں میں جائیداد کی قیمتوں کے تعین کا ٹیبل 1899 کے اسٹیمپ ایکٹ کے سیکشن 27 اے کے تحت ضلع کا کلیکٹر جاری کرتا ہے۔

رواں سال کے آغاز میں حکومت نے رئیل اسٹیٹ شعبے کو ٹیکس دھارے میں لانے کیلئے قانون سازی کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد رئیل اسٹیٹ کے شعبے نے فیڈرل بورڈ آف رونیو (ایف بی آر) کو 28 جولائی 2016 کو موجودہ مارکیٹ رپورٹ جمع کرا دی تھی، جس کے مطابق ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) کی منظور شدہ شرح کے باعث جائیداد کی قیمتوں میں 70 فیصد اضافہ ہوا۔

ایسوسی ایشن آف بلڈرز اور ڈویلپرز (آباد) کے سینئر وائس چیئرمین عارف جیوا کی سربراہی میں ریٹیلرز کے 13 رکنی وفد نے ملک کے 18 شہروں میں جائیداد کی موجودہ قیمتوں کے حوالے سے رپورٹ جمع کرائی تھی۔

ان 18 شہروں میں اسلام آباد سمیت پنجاب کے 10، سندھ کے 3، جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے 2،2 شہر شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: کراچی،اسلام آباد میں جائیداد کی نئی قیمتیں مقرر

خیال رہے کہ گزشتہ دہائیوں میں کراچی میں زمین پر قبضے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، خاص کر ایسے علاقوں میں جہاں امن و امان کی صورتحال خراب ہے، جیسا کہ لانڈھی، ہاکس بے، سہراب گوٹھ ، گلستان جوہر، گڈاپ ٹاون، سرجانی ٹاون، میمن گوٹھ اور نیشنل ہائی وے میں قبضہ مافیا اپنے عروج پر ہے۔

عام طور پر بدعنوان سیاستدان اور حکومتی افسران اس طرح کے معاملات میں ملوث ہوتے ہیں، یہ لوگ زمین پر قبضہ، غیر قانونی پانی کی سپلائی، بھتہ خوری اور اسمگلنگ جیسے غیر قانونی کاموں سے کروڑوں روپے بٹورتے ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زمینوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں کراچی میں قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن کی کامیابی کی نشاندہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اگلے وقتوں میں اس شہر کے اکثر باسیوں کے لیے "اپنا گھر" ایک خواب ہی بن کر رہ جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں