اسلام آباد: نندی پور پاور پراجیکٹ حکومت کے لیے مسلسل رہنے والا درد سر بنتا جارہا ہے اور اب حکومت سے 425 سے 525 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے اس منصوبے سے، جون سے بجلی کی پیداوار نہ ہونے کے باعث وضاحت طلب کی گئی ہے۔

عوامی سماعت کے دوران نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے وائس چیئرمین ہدایت اللہ خان نے وزارت پانی و بجلی اور ناردرن پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ (این پی جی سی ایل) سے تحریری وضاحت طلب کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ یہ پلانٹ طویل عرصے سے کیوں بند ہے۔

ریگولیٹری اتھارٹی نے ماہ اکتوبر کے لیے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں، ’کے الیکٹرک‘ کے علاوہ دیگر تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 2 روپے 60 پیسے کمی کی بھی منظوری دی۔

قیمت میں کمی کا اطلاق زرعی ٹیوب ویلز اور 300 سے کم یونٹ استعمال کرنے والے گھریلو صارفین پر نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: نندی پور پلانٹ: بجلی کی پیداوار کا پھر آغاز

جنرل منیجر محمد الیاس کی سربراہی میں سینٹرل پاور پرچیز ایجنسی (سی پی پی اے) کی ٹیم نے ہدایت اللہ خان کو بتایا کہ پلانٹ کو معائنے کے لیے بند کیا گیا تھا۔

اس پر ہدایت اللہ خان کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے پاور پلانٹ کو صرف انسپیکشن کو بنیاد بنا کر بند نہیں رکھا جاسکتا، جبکہ اتھارٹی یہ جاننا چاہتی کہ پلانٹ سے بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کیوں نہیں ہورہی۔

انہوں نے کہا کہ ریگولیٹر کے علم میں یہ بات آئی تھی کہ پلانٹ کو جون میں، اس کے چینی کانٹریکٹرز کی جانب سے جزوی طور پر ڈسمینٹل کردیا گیا ہے، جبکہ نندی پور منصوبے سے بجلی پیدا نہ ہونے سے قوم کو اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔

سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہدایت اللہ خان کا کہنا تھا کہ نیپرا حکومت اور کمپنی کے تحریری جوابات کی بنیاد پر متعلقہ جنریشن کمپنی پر جرمانہ عائد کرسکتی ہے۔

واضح رہے کہ نندی پور پاور پروجیکٹ کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دور حکومت میں چینی کانٹریکٹرز کی جانب زیادہ دلچسپی نہ لیے جانے اور بندرگاہوں پر اس کی مشینری پھنسے ہونے کی وجہ سے پلانٹ کی انسٹالیشن میں تاخیر کے باعث تنقید کا نشانہ جاتا رہا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اس پروجیکٹ میں پھر سے جان تو ڈال دی، لیکن اس کی لاگت 42 ارب روپے سے بڑھ کر 65 ارب روپے سے زائد تک پہنچ گئی۔

مزید پڑھیں: نندی پور پاور پراجیکٹ کی لاگت میں اربوں روپوں کا اضافہ

اس پاور پلانٹ کو اپنے تجارتی آپریشنز کے دوران اور بعد میں کئی طرح کے آپریشنل مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور دو حکومتی ادوار کے دوران یہ منصوبہ کئی کورٹ کیسز، انکوائریوں، تحقیقات، آڈٹس، سیاسی اور تجارتی تنازعات کا شکار رہا۔

جمعرات کو سماعت کے دوران نیپرا کی جانب سے پاور پلانٹس میں، سستے اور متبادل ایندھن کی دستیابی کے باوجود مہنگے ایندھن کے استعمال پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔

اتھارٹی نے ریگولیٹر کی جانب سے ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کے لیے رواں سال جنوری میں مالی سال 2015-16 کے لیے اعلان کردہ بنیادی ٹیرف میں کمی کا نوٹی فکیشن جاری نہ کرنے کے حوالے سے بھی وزارت پانی و بجلی سے جواب طلب کیا ہے۔


یہ خبر 25 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں