ترک صدر رجب طیب اردگان کا کہنا ہے کہ ترکی کی فوج شام میں صدر بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ کرنے کے لیے گئی ہے تاہم ان کے اس بیان نے روس کو ناراض کردیا ہے۔

روسی ویب سائٹ کے مطابق ترک اخبار روزنامہ حریت نے صدر طیب اردگان کے اس بیان کو شائع کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ’ہم شام میں ظالم بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ کرنے کے لیے داخل ہوئے ہیں جو ریاستی دہشت گردی کے ذریعے دہشت پھیلا رہے ہیں، شام میں ہمارے داخل ہونے کی اور کوئی وجہ نہیں‘۔

اخبار کے مطابق ترک صدر نے ان خیالات کا اظہار استنبول میں پہلی بین ال پارلیمانی یروشلم پلیٹ فارم سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

طیب اردگان کا مزید کہنا تھا کہ ترکی کا شام کے علاقے پر کوئی دعویٰ نہیں لیکن وہ اقتدار شامی عوام کے سپرد کرنا چاہتا ہے اور شام میں انصاف کی بحالی دیکھنا چاہتا ہے۔

ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’ہم شام میں کیوں داخل ہوئے؟ ہماری نظر شام کے تیل پر نہیں، مسئلہ سرزمین کو اس کے اصل حقداروں کے حوالے کرنے کا ہے، یہ کہنا چاہیے کہ ہم وہاں انصاف قائم کرنے کے لیے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی نے پیٹھ میں خنجر گھونپا، روسی صدر

اردگان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے اندازوں کے مطابق شام کے تنازع میں اب تک 10 لاکھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں لیکن کوئی مانیٹرنگ گروپ یہ تعداد فراہم نہیں کرتا۔

اقوام متحدہ کی جانب سے فراہم کیے جانے والے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق شام کی پانچ سالہ خانہ جنگی میں 4 لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

اردگان نے کہا کہ ترکی شہریوں کی ہلاکتوں کے نہ رکنے والے سلسلے کو برداشت نہیں کرسکتا تھا لہٰذا اسے شام میں فری سیرین آرمی کے ساتھ داخل ہونا پڑا۔

انہوں نے اقوام متحدہ پر بھی تنقید کی اور کہا کہ وہ شام کی صورتحال کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے اور عالمی ادارہ اپنی موجودہ حالت میں غیر موثر ہے۔

حریت اخبار کے مطابق ترک صدر نے سیکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ’ دنیا محض پانچ ملکوں پر محیط نہیں‘۔

واضح رہے کہ ترک فوج رواں برس 24 اگست کو شام میں داخل ہوئی تھی اور وہاں آپریشن ’فرات کی ڈھال‘ شروع کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ترک طیاروں کی شام میں بمباری، 20 شہری ہلاک

ترکی نے پڑوسی ملک شام کے شمالی علاقوں میں اپنی بری اور فضائی افواج کو تعینات کردیا تھا اور اس کا مقصد شام کے ان علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنا تھا جو شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے میں ہیں۔

تاہم کئی مبصرین کا کہتے ہیں کہ ترکی کا مقصد شام میں موجود کرد فورسز کو دبانا اور انہیں ترک سرحد کے جنوب میں تین درحقیقت خودمختار کرد علاقوں کو ضم کرکے ایک ریاست قائم کرنے سے روکنا تھا۔

ترکی کے آپریشن کی وجہ سے شام سے اس کے تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے ہیں اور انقرہ کو 22 اکتوبر کو شام میں اپنا فضائی آپریشن بند کرنا پڑا تھا کیوں کہ شام نے اس پر فضائی خود مختاری کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ وہ اپنی حدود میں ترک طیاروں کو مار گرائے گا۔

روس ناراض

دوسری جانب ترک صدر طیب رجب طیب اردگان کے بیان پر روس نے بھی ناراضی کا اظہار کیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق روس کا کہنا ہے کہ طیب اردگان کے بیان کا معاملہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے دورہ ترکی کے موقع پر اٹھایا جائے گا۔

روس کو شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کا حامی تصور کیا جاتا ہے اور گزشتہ برس روس بھی شام میں جاری جنگ میں شامل ہوگیا تھا اور ابتداء میں اس نے بشار الاسد کے خلاف بغاوت کرنے والے گروہوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا تاہم عالمی تنقید کے بعد روس نے داعش کو بھی نشانہ بنانا شروع کیا۔

یہ بھی پڑھیں: شام میں روسی کارروائی،امریکا کو تشویش

فضائی کارروائیوں کے دوران ترکی نے روس کا ایک لڑاکا طیارہ بھی مار گرایا تھا جس میں ایک روسی پائلٹ ہلاک ہوا تھا اور اس واقعے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات بہت زیادہ کشیدہ ہوگئے تھے۔

روسی صدر ولادمیر پیوٹن نے شامی سرحد پر ترکی کی جانب سے روسی لڑاکا طیارہ گرانے کو ’ پیٹھ میں خنجر گھونپنے‘ سے تعبیر کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ واقعہ کے ماسکو-انقرہ تعلقات پر ’سنگین نتائج‘ مرتب ہوں گے۔

واضح رہے کہ انقرہ شام میں سرگرم وائی پی جی یا کردش پیپلز پرٹیکشن یونٹس پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ ترکی کے جنوب مشرق میں کردوں کی حمایت کررہے ہیں۔

ترکی نے مذکورہ گروپ کو ہدایت کی تھی کہ وہ دریائے فرات کے اطراف سے پیچھے ہٹ جائے لیکن یہ گروپ اس علاقے میں داعش کے خلاف جنگ میں امریکا کا بھی ایک موثر شراکت دار ہے۔

داعش 2013 سے شام اور ترکی کے سرحدی علاقے پر قابض ہے اور 2014 میں امریکی حمایت یافتہ کرد فورسز نے اس علاقے پر کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کیلئے مزاحمت کا آغاز کیا تھا۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں