اسلام آباد: توہین مذہب کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی میں ہونے والی بحث نے اس وقت نیا رخ اختیار کرلیا، جب کمیٹی اراکین نے بحث 24 سال پرانی سینیٹ رپورٹ کے مطابق آگے بڑھانے کی کوشش کی۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ 1992 میں اس وقت کی سینیٹ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے توہین مذہب کے قانون کے مختلف پہلوؤں کو بہتر بنانے کے حوالے سے سفارشات پیش کی تھیں۔

انہوں نے سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بتایا کہ ’بدقسمتی سے اس رپورٹ کو نامعلوم وجاہات کی بنا پر آرکائیو کا حصہ بنا دیا گیا اور طویل عرصے بعد بھی اس کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔‘

فرحت اللہ بابر کی جانب سے اس دستاویز اور اس کی سفارشات پر روشنی ڈالے جانے کے بعد کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ وہ اس رپورٹ سے رہنمائی حاصل کرے گی اور توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال سے روکنے کے لیے اس رپورٹ کا حوالہ دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: توہین رسالت: دو عیسائیوں سمیت 3 افراد کو سزائے موت

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ 4 نومبر 1991 کو سینیٹ میں ترمیم متعارف کرائی گئی تھی، جس کے تحت توہین مذہب کے مرتکب شخص کو عمر قید کے بجائے لازمی طور پر سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا، جبکہ ترمیم کو اسی روز قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بھجوا دیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت قانون و انصاف کی کمیٹی کی سینیٹ میں قائد ایوان راجا ظفر الحق سربراہی کر رہے تھے، جبکہ کمیٹی اراکین میں سابق اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار سمیت دیگر شامل تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’پی پی سی کی دفعہ 295 کے تحت توہین مذہب کے جرم کی تعریف مزید مخصوص کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس کی موجودہ شکل بہت عمومی ہے۔‘

رپورٹ کے مطابق کمیٹی کی جانب سے یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ ’توہین مذہب کے مرتکب شخص کو آنحضرتؐ، چاروں خلفاء راشدین اور اس کے بعد کے زمانے میں اسلامی ممالک میں کیا سزا دی جاتی تھی۔‘

مزید پڑھیں: توہین رسالت کون کر رہا ہے؟

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ’تاہم مختلف سوالات اٹھانے کے بعد یہ رپورٹ اس حوالے سے خاموش ہوگئی کہ توہین مذہب کے قانون کے حوالے سے آیا وہ مجوزہ ترمیم منظور کرے یا نہیں۔‘

بہرحال ایم کیو ایم کی سینیٹر نسرین جلیل کی سربراہی میں فنکشنل کمیٹی نے 1992 کی رپورٹ کو، توہین مذہب کے قانون کے مختلف پہلوؤں کو بہتر بنانے کے حوالے سے بحث میں رہنمائی حاصل کرنے کے لیے، بنیاد بنانے کی تجویز کو قبول کرلیا۔

انسانی حقوق سے متعلق قومی کمیشن (این سی ایچ آر) کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان نے توہین مذہب کے قانون میں ’توبہ‘ کے پہلو کو شامل کرنے کی تجویز دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: 'تمام مذاہب کی بے حرمتی پر توہینِ مذہب کا قانون لاگو'

ان کا کہنا تھا کہ ’جو اپنے کیے پر شرمندہ ہو اور توبہ کرلے اسے آنحضرتؐ نے معاف کرنے کی اجازت دی ہے۔‘

تاہم سینیٹر مفتی عبد الستار کمیٹی کے وہ واحد رکن تھے جنہوں نے اس تجویز پر اعتراض کرتے ہوئے کمیٹی کو توہین مذہب کے قانون میں ترامیم کرنے سے متعلق خبردار کیا۔


یہ خبر 3 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں