اسلام آباد: وزارتِ خارجہ امور (ایم او ایف اے) میں پاکستان اور روس کے درمیان وزارتِ خارجہ کی سطح پر پہلا مشاورتی اجلاس ہوا۔

دفترِ خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا کے جاری کردہ بیان کے مطابق ماسکو سے اسلام آباد پہنچنے والے وفد کی سربراہی روسی وزارتِ خارجہ میں محکمہ سی آئی ایس کے تیسرے سربراہ الیگزینڈر اسٹیرنک نے کی جبکہ پاکستان کی جانب سے وزارتِ خارجہ امور کے ڈائریکٹر جنرل احمد حسین دایو موجود تھے۔

مشاورت میں دو طرفہ تعلقات، تجارت اور مواصلات سے متعلق امورزیرِ غور آئے جبکہ عالمی اور علاقائی امور پر بھی باہمی مشاورت کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: تاریخ میں پہلی بار روسی فوج کی پاکستان آمد

دونوں ممالک نے مستقبل میں بھی مشاورتی عمل جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان اور روس کے دوران مشاورات کا اگلا دور آئندہ سال روس کے دارالحکومت ماسکو میں ہوگا۔

واضح رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں پاکستان اور روس بہت تیزی سے ایک دوسرے سے قریب ہوتے جا رہے ہیں، دونوں ممالک میں دو طرفہ تعلقات، تجارت اور مواصلات سے متعلق امورزیرِ غور آنے سے قبل دفاعی تعاون بڑھانے کا باقاعدہ سلسلہ 2014 میں اس وقت شروع ہوا تھا، جب روس کے وزیر دفاع سرگئی شوئے گو نے پاکستان کا دورہ کیا تھا، اسی دورے میں ماسکو اور اسلام آباد نے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

بعد ازاں اگست 2015 میں پاکستان نے روس سے ایم آئی 35 ہیلی کاپٹرز خریدنے کا بھی معاہدہ کیا، یہ ہیلی کاپٹرز قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں استعمال کیے جائیں گے۔

خیال رہے کہ روس اپنے دیرینہ اتحادی ہندوستان کی مخالفت کے باعث پاکستان سے دفاعی تعاون کے سلسلے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہا ہے اور ماضی میں ایک عرصے تک اس کی مخالفت بھی کی جاتی رہی ہے۔

مزید پڑھیں : 'امریکا کو چین، روس اور پاکستان سے خطرہ'

یہ بھی ذہن میں رہے کہ رواں برس اگست میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے خبردار کیا تھا کہ آئندہ 20 برس میں روس، چین، پاکستان اور شمالی کوریا کا نیا اتحاد بن سکتا ہے جبکہ ان سے امریکی برتری کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

پینٹاگون کے ڈیفنس ٹیکنیکل انفارمیشن سینٹر کی جانب سے مرتب کی جانے والی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ آئندہ دو دہائیوں میں امریکا عالمی سطح پر طاقت ور ترین ملک تو برقرار رہے گا لیکن عالمی منظر نامے میں اس وقت تک نئے کردار بھی سامنے آچکے ہوں گے۔

پاکستان اور روس کی قربت میں تیزی سے بڑھتے اضافے کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ تین ماہ قبل ستمبر میں تاریخ میں پہلی بار مشترکہ جنگی مشقوں میں حصہ لینے کے لیے روس کا فوجی دستہ پاکستان آیا، فوجی مشقوں کو سلواکیہ زبان کے لفظ ’دروزھبا2016‘ یعنی دوستی 2016 کا نام دیا گیا تھا۔

دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو ستمبر 2012 میں پاکستان کا دورہ بھی کرنا تھا، لیکن عین وقت پر چند وجوہات کی بنا پر انہوں نے اپنا یہ دورہ ملتوی کر دیا، تاہم اس کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کے عمل کو کوئی دھچکا نہیں پہنچا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ کے آخر میں یہ رپورٹس بھی سامنے آئی تھیں کہ پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے میں روس کو شامل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس کو گوادر پورٹ کے ذریعے گرم پانیوں تک رسائی دی جائے گی، تاہم بعد ازاں روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ماسکو، سی پیک میں شمولیت کے حوالے سے اسلام آباد سے مذاکرات نہیں کر رہا۔ ۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں