پاناما پیپرز میں دنیا کی مشہوراور طاقتور شخصیات کے نام سامنے آنے سے لے کر برازیل اور جنوبی کوریا کے صدور پر لگنے والے الزامات تک سال 2016 کے دوران کئی کرپشن کے حیران کن اسکینڈلز بےنقاب ہوئے، جو دنیا بھر کی عوام کے غم و غصے کو بڑھانے کی اہم وجہ بنے۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ تمام انکشافات ’کرپشن سے پاک سیاست‘ کے دیرینہ مطالبے میں کسی قسم کا حصہ ڈالیں گے؟

پیرو کے معروف وکیل اور بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی انسدادِ بدعنوانی کے سربراہ جوز یوگاز کہتے ہیں کہ دنیا میں شفافیت کی موجودہ صورتحال آج سے 27 سال پہلے جب یہ تنظیم قائم کی گئی تھی اس صورتحال سے یکسر مختلف ہے۔

ان کے مطابق ’ہم دنیا میں اس قسم کی کرپشن ہوتی دیکھ رہے ہیں, جو لوگوں کو متاثر کرتی ہے، مگر ساتھ ہی ہم لوگوں کو اس کرپشن کے خلاف آواز بلند کرتا بھی دیکھ رہے ہیں‘۔

بظاہر دیکھنے میں 2016 ایک مشکل سال لگتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سال مستقبل کے حوالے سے پرامید بھی کرتا ہے۔

پاناما پیپرز لیکس

اپریل 2016 میں سر اٹھانے والے اس اسکینڈل نے دنیا بھر میں ہلچل پیدا کر دی تھی، لیکس میں سامنے آنے والی آف شور کمپنیوں کے مالکان میں دنیا بھر کی کئی مشہور، امیر اور بااثر شخصیات کے نام شامل تھے۔

آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لاء فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات میں پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے، وہیں ان دستاویزات نے بولی وڈ سمیت ہندوستان کی مختلف شخصیات کے نام بھی شامل تھے۔

پاناما لیکس میں بتایا گیا کہ کس طرح دنیا بھر کے امیر اور طاقت ور لوگ اپنی دولت چھپانے اور ٹیکس سے بچنے کے لیے بیرون ملک اثاثے بناتے ہیں۔

مزید پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگٹیو جرنلسٹس (International Consortium of Investigative Journalists) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل تھا جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ سامنے آیا۔

ان دستاویزات میں روس کے ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت چین، ملائیشیا، ارجنٹائن، یوکرئن کے اہم رہنماؤں سمیت 140 سیاستدانوں اور عوامی افسران نام شامل تھے۔

واضح رہے کہ اس انکشاف کے بعد دنیا بھر کے سیاسی منظر نامے میں کافی الٹ پلٹ دیکھنے میں آئی۔

• آف شور کمپنی کے انکشاف کے بعد عوامی احتجاج کے باعث مجبور ہو کر آئس لینڈ کے وزیراعظم کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔

• برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنے والد کی قائم کردہ آف شور کمپنی سے منافع حاصل کیا۔

• روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے قریبی رشتہ دار کا نام سامنے آیا، جس کے بعد روسی صدر نے یہ دعویٰ کیا کہ پاناما پیپرز، ان کے خلاف امریکا کی سازش ہے۔

• ارجنٹائن کے صدر ماریکیو ماکری کا بھی آف شور کمپنیوں سے تعلق میں سامنے آیا۔

• چین میں سیاسی رہنماؤں کے خاندان کی آف شور کمپنیوں سے تعلقات سے خبریں میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس پر چلانے پر پابندی عائد کردی گئی۔

• پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کا نام بھی ان کے بچوں کے حوالے سے پاناما لیکس میں سامنے آیا، جس کے مطابق وزیراعظم کے بچے مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے۔

• دیگر مشہور افراد، جن میں دستاویزات افشا ہونے کے بعد بے چینی پیدا ہوئی، ان میں اسٹار فٹبالر لیونل میسی، ہانگ کانگ کے فلم اسٹار جیکی چین اور ہسپانوی فلم ڈائریکٹر پیڈرو الموڈور کے نام شامل ہیں۔

اس سب کے دوران چینی صدر شی جن پنگ کے اہل خانہ کی معلومات کی مقامی میڈیا اور آن لائن فورمز پر پابندی نے مبصرین کو اس تشویش میں مبتلا کیا کہ کمیونسٹ پارٹی کے رشتے دار اس کریک ڈاؤن سے محفوظ بچ گئے۔

اس پر ہانگ کانگ کی چائینز یونیورسٹی میں سیاست کے استاد ولی لیم کہتے ہیں کہ یہ دوہرا معیار ہے۔

شفافیت کی طاقت

پاناما پیپرز کی اشاعت شفافیت کی طاقت اور اس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی نشاندہی کرتی ہے۔

مئی میں لندن میں منعقدہ انسدادِ بدعنوانی کے سربراہی اجلاس میں ورلڈ بینک کے سربراہ جم یونگ نے دنیا میں مزید شفافیت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ کرپشن غریب سے چوری کرنے کے مترادف ہے۔

ایک حالیہ اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 20 کھرب ڈالر (2000 کھرب روپے سے زائد) سالانہ رشوت کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق جن ممالک میں ریاستی سربراہان کرپٹ ہوتے ہیں، وہاں شہریوں میں بھی بدعنوانی کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔

برازیلین صدر برطرف

رواں سال اگست میں برازیلین خاتون صدر ڈلما روزیف کو مواخذے کے بعد عہدے سے فارغ کردیا گیا۔

صدر کی برطرفی کا معاملہ برازیل میں منعقد ہونے والے ریو اولمپکس کے مقابلوں سے چند روز قبل سامنے آیا، صدر ڈلما روزیف پر بڑھتے ہوئے بجٹ خسارے کو چھپانے کے لیے سرکاری اکاؤنٹس میں ردو بدل کرنے کے الزامات تھے۔

یہ بھی پڑھیں: برازیل کی پہلی خاتون صدر برطرف، مظاہرے شروع

برازیلین صدر پر لگنے والے الزامات میں ریاستی آئل کمپنی میں بھی خردبرد کے الزامات سامنے آئے تھے۔

جنوب کوریا کے عوامی مظاہرے

جنوبی کوریا کی صدر بھی اس سال مواخذے سے محفوظ نہ رہ سکیں۔

جنوبی کوریا کی حکومت کو رواں برس ’چوئے گیٹ‘ اور ’چوئے سونامی‘ کے اسکینڈل کی زَد میں لیے رکھا ہے جبکہ جنوبی کوریا کے صدر کی پرانی واقف کار اور مشیر 60 سالہ چوئے سون سل کی جانب سے اپنے ذاتی مفاد کے لیے حکومتی معاملات میں عمل دخل کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد سے صدر پارک جیون ہے کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد سے جنوبی کورین عوام اور حزب اختلاف میں شدید غم و غصہ دیکھا گیا۔

مزید پڑھیں: جنوبی کوریا: پارلیمنٹ میں صدر کے مواخذے کا بل منظور

صدارتی دور کے آغاز میں اپنی دوست چوئے کو صدارتی تقریروں کے ڈرافٹس تک رسائی دینے پر کورین صدر نے ٹیلی ویژن پر عوام سے معذرت بھی کی تاہم اس سے اپوزیشن اور عوام کے اس مطالبے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے کہ صدر پارک خاتون چوئے کے ساتھ اپنے تعلقات واضح کریں۔

ملائیشیا کے وزیراعظم کی مالی بدعنوانی

ملائیشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق پر بھی مالی بدعنوانی کے الزامات لگتے رہے۔

انہوں نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے کرپشن کے خلاف تحقیقات کو بند کر دیا

تحقیقات بند کرنے کے ساتھ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ ان کے مخالفین کا منصوبہ تھا، دوسری جانب ہزاروں افراد اس پر احتجاج کرنے سڑکوں پر آئے، جو ان کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

جنوبی افریقی صدر بھی اسکینڈلز میں ملوث

جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما پر بھی متعدد اسکینڈلز میں ملوث ہونے کے الزامات سامنے آئے، 2014 میں جماعت اے این سی کی بھر پور تائید اور حمایت کی بدولت منتخب صدر جیکب 2019 تک تمام اختیارات کے مالک ہیں۔

ملک کا حکمران ہونے کے باوجود ایک عدالتی حکم کے مطابق ان کو بدعنوانی کے 783 معاملات کا سامنا کرنا چاہیے، سرکاری رپورٹ کے مطابق ان پر ایک ہندوستانی امیر خاندان سے رشوت لینے کا الزام بھی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں