کراچی: ملیر کے بعد شہر کے ایک اور علاقے اورنگی ٹاؤن کے بڑے سرکاری ہسپتال میں پھیلنے والے وبائی مرض چکن گونیا کے 78 مشتبہ کیس سامنے آئے، اس سے پہلے طبی ماہرین کی ٹیم نے ملیر میں چکن گونیا کی تصدیق کی تھی۔

طبی ماہرین کی ٹیم نے ملیر میں 49 مریضوں میں مشتبہ طور پر چکن گونیا کی تصدیق کی تھی۔

سندھ گورنمنٹ قطر ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ(ایم ایس) ڈاکٹر خالد مسعود نے ڈان کو بتایا کہ گذشتہ کچھ دنوں سے مریضوں کی بڑی تعداد نے تیز بخار اور جسم کے درد سے متعلق علاج کروایا۔

ان کے مطابق یہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والی بیماری نہیں بلکہ یہ ملیر کے علاقے میں پھیلنے والی وبا ہے جس میں مریض تین سے پانچ دن کے اندر صحت یاب ہوجاتا ہے، ان کے پاس علاج کے لیے کئی خاندان آ رہے ہیں اورآنے والے خاندان کا کوئی ایک فرد اس مرض میں مبتلا نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں پراسرار بیماری کا حملہ

قطر ہسپتال کے ایم ایس کے مطابق منگل 20 دسمبر کو ہسپتال کے ایمرجنسی میں آنے والے 2240 مریضوں میں سے 80 فیصد مریضوں میں ایک جیسی ہی علامات تھیں، یہ تمام افراد درد اور بخار کی ادویات استعمال کر رہے تھے، انہیں کوئی بھی اینٹی بائیوٹک ٰیا خون پتلا کرنے کی دوائی نہیں دی گئیں کیونکہ وہ خون کی روانی کم کرسکتی تھی۔

دوسری جانب محکمہ صحت سندھ نے ملیر میں چکن گونیا کی تشخیص کے لیے تفتیش کرنے والی ٹیم کو وسیع کرتے ہوئے ٹیم میں فیلڈ ایپڈمیولاجی اینڈ لیبارٹری ٹریننگ پروگرام (ایف ای ایل ٹی پی)کے ماہرین کو بھی شامل کردیا ہے۔

چکن گونیا کی تشخیص کی تفتیش کرنے والی ٹیم وفاقی وزارت صحت ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد، بیماریوں کے روک تھام کے لیے ایٹلانٹا کے ادارے اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔

میڈیا میں چکن گونیا کے مریضوں کی کافی بڑی تعداد رپورٹ ہونے کے برعکس صرف 127 مریضوں کو مشتبہ قرار دیے جانے کے جواب میں ایک اہم سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر آصف کا کہنا تھا کہ ہم سائنسی اور مخصوص علامات کے تحت ان کیسز پر کام کر رہے ہیں، جوڑوں کا درد اور 102 ٹیمریچر کے بخار کو مشتبہ چکن گونیا کے مرض میں شامل کیا گیا ہے، اتفاقی طور پر ملیریا اور موسمی بخار کو بھی ہسپتالوں نے چکن گونیا میں شامل کرلیا تھا ۔

مزید پڑھیں: چکن گونیا کا پھیلاؤ، حکومت سستی کا شکار

انہوں نے چکن گونیا کی تحقیق میں وقت لینے والی بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سائنسی تحقیق کچھ وقت لیتی ہے، اگرچہ پاکستان میں پہلے اس مرض کو رپورٹ نہیں کیا گیا مگر یہ دنیا کے 60 ممالک میں موجود ہے۔

ڈاکٹر نے ایک اور سوال کےجواب میں کہا کہ یہ مرض آدمی کو محدود کردیتاہے،مگر یہ مہلک نہیں ہے اور غذائیت کے شکار افراد کو صحت یاب ہونے میں وقت لگتا ہے۔

ان کے مطابق سعودآباد کی سرکاری ہسپتال پر خصوصی توجہ سمیت علاقے کی نجی ہسپتالوں میں صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشش کی جا رہی ہیں، جب کہ بیماری سے متعلق عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے بھی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق آغا خان یونیورسٹی ہسپتال(اے کے یو ایچ)کے پیتھالوجی اور لیبارٹری شعبوں کے ماہرین اس وقت چکن گونیا، ویسٹ نائل، سندبیس اور جاپانی بی انسیفلائٹس سمیت مچھروں کے کاٹنے کے بعد پیدا ہونے والے تمام امراض کی تفتیش کرنے والے سرویلنس منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'پاکستان میں چکن گونیا وائرس کی موجودگی کی تردید'

آغا خان کے پیتھالوجی ڈپارٹمنٹ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ارم خان کے مطابق تمام وائرسز میں یکساں علامات پائے جانے کے بعد یہ بات اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ تمام نمونوں کو امریکا میں موجود اس کیس سے متعلق خصوصی لیبارٹری سے تصدیق کرائی جائے۔

ڈاکٹر ارم کے مطابق پورا شہر آلودہ بنا ہوا ہے، شہری انتظامیہ مچھروں کی افزائش روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے اور یہ عوامل مچھر کے کاٹنے کے بعد بڑھنے سے پھیل رہے ہیں، اور تیزی سے پھیلنے والے ان امراض کی روکتھام کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امکان ہے کہ پھیلنے والی وبا چکن گونیا پڑوسی ممالک سے پاکستان میں منتقل ہوئی مگر یہ مکمل جینیاتی تجزیے کے بعد ہی کہا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر ارم نے مزید بتایا کہ چگن گونیا، بخار، ڈینگی، متلی اور جسم میں درد کی علامات تقریبا یکساں ہیں، لیکن گزشتہ کیسوں میں دیکھا گیا ہے کہ مریض کو بخار کے بعد سوجن ہوجاتی ہے اور مریض کو مکمل طور پر تباہ کردیتا ہے جس وجہ سے مریض کو صحت یاب ہونے میں وقت لگتا ہے اور یہ عمل مریض کی مالی مشکلات میں اضافہ کرتا ہے۔


یہ رپورٹ 22 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں