کراچی: سندھ پولیس کے انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے بینکنگ نظام کے علاوہ رقم کی منتقلی بذریعہ موبائل فونز پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں اس سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد یا جرائم پیشہ افراد اس کا غلط استعمال کرسکتے ہیں۔

تاہم مذکورہ سہولت فراہم کرنے والی موبائل کمپنیوں نے اصرار کیا کہ وہ رقم کی منتقلی کے حوالے سے تمام قواعد وضوابط پر عمل کرتے ہیں، اور اس حوالے سے انھیں کبھی بھی ریگولیٹرز یا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کسی قسم کی کوئی شکایت بھی موصول نہیں ہوئی۔

سی ٹی ڈی نے وفاقی حکومت سے کہا کہ وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ہدایات جاری کریں کہ اس قسم کی سہولت فراہم کرنے والوں کو رقم کی منتقلی کے حوالے سے مناسب اقدامات کیے جائیں، خاص طور پر دور دراز علاقوں کیلئے، اور جب کسی تحقیقات کی ضرورت پڑے تو اس کا ڈیٹا انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ کو فراہم کیا جائے۔

وفاقی حکومت کو یہ بھی کہا گیا کہ وہ مالی جرائم کا مناسب انداز میں سراغ لگانے کیلئے سندھ پولیس کو ٹریننگ بھی فراہم کی جائے۔

اس حوالے سے اطلاعات رکھنے والے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ان مسائل کی نشاندہی سندھ پولیس کے سی ٹی ڈی کے انچارج ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس ڈاکٹر ثناء اللہ عباسی نے وزارت داخلہ کو لکھے گئے اپنے حالیہ خط میں کی ہے۔

ڈان کو حاصل ہونے والی خط کی کاپی کے مطابق 'اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قواعد و ضوابط واضح ہونے کے باوجود بغیر بینک اکاؤنٹ کے ایک فرد کی جانب سے رقم کی منتقلی خدشات کو جنم دے گی کیونکہ سہولت جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کی جانب سے غلط استعمال کی جاسکتی ہے۔

خط میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ برانچ کے بغیر بینکنگ کے ذریعے رقم کی منتقلی کا نظام موجودہ بینکنگ نظام کے مقابلے میں رقم کی منتقلی کے حوالے سے ایک آسان اور کم خرچ سہولت فراہم کرتا ہے جو موبائل فونز اور دیگر ریٹیل یا خوردہ ایجنٹس کی مدد سے کی جاتی ہے۔

خیال رہے کہ اس وقت موبی کیش (موبی لنک) اور ایزی پیسہ (ٹیلی نار) ملک میں دیگر علاقوں کے ساتھ دور دراز علاقوں میں بھی رقم کی منتقلی کی سہولت فراہم کررہے ہیں۔

خط میں مزید کہا گیا کہ 'اس سہولت کا سب سے اہم حصہ یہ ہے کہ بغیر کسی اکاؤنٹ کی موجودگی کے رقم ایک شخص سے دوسرے شخص کو منتقل کردی جاتی ہے'۔

اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ رقم منتقل کرنے کی زیادہ سے زیادہ حد 50000 روپے ہے جو کسی بھی ایجنٹ کی مدد سے چند منٹس میں ملک کے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل کی جاسکتی ہے، اس حوالے سے ایجنٹ کا بائیو میٹرک نظام کے تحت رجسٹر ہونا ضروری ہے۔

ثبوت موجود نہیں

سی ٹی ڈی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اب تک اس حوالے سے کوئی ثبوت سامنے نہیں آئے ہیں کہ برانچ کے بغیر بینکنگ کے مذکورہ نظام کے تحت یہ سہولت خاص طور پر دہشت گرد گروپوں کے استعمال میں ہے۔

اور ناہی پولیس نے کسی ایسے شخص کو حراست میں ہی لیا ہے جس پر الزام ہو کہ اس نے مذکورہ سہولت کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کیلئے استعمال کیا ہے۔

سندھ پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے تجویز پیش کی کہ دہشت گردوں کی جانب سے برانچ کے بغیر بینکنگ کے نظام کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کو اسٹیٹ بینک کو یہ سفارش کرنی چاہیے کہ 'خاص طور پر دور دراز علاقوں میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ فرنچائز اس سہولت سے فائدہ حاصل کرنے والے تمام افراد کا انتہائی درست اور جامع ریکارڈ برقرار رکھیں'۔

سی ٹی ڈی نے تجویز دی ہے کہ اس سہولت کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے یہ سفارش کی جائے کہ رقم کی منتقلی کرنے والے فرنچائزز رقم حاصل کرنے والے فرد کا سی این آئی سی یا بی آئی ایس پی کارڈ کی کاپی حاصل کریں اور یہ معلومات اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو بذریعہ ٹیلی فون سروس فراہم کریں۔

اسی طرح اگر کسی تفتیش میں ضروری محسوس ہو تو انسداد دہشتگردی اینجسز کو مذکورہ معلومات تک رسائی حاصل ہو۔

سی ٹی ڈی کے چیف کے خط کے مطابق 'اسٹیٹ بینک ان معلومات کی روشنی میں کسی بھی ایسے شخص کو رقم کی منتقلی کو نشان زدہ کرے جو انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کے تحت فورتھ شیڈیول کی فہرست میں شامل ہے'۔

اس میں مزید کہا گیا کہ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو فورتھ شیڈیول میں شامل مذکورہ افراد اور ان کے استعمال میں موجود بینک اکاؤنٹس کی معلومات بھی فراہم کی جائیں۔

خط میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ سی ٹی ڈی سندھ، اسٹیٹ بینک سے ایسے افراد کے اکاؤنٹس کی معلومات کے حصول کیلئے غور کررہی ہے جن کے نام سندھ حکومت کی جانب سے اے ٹی اے کے تحت فورتھ شیڈیول میں ڈالے گئے ہیں۔

سی ٹی ڈی یہ معلومات مزید تحقیقات کے سلسلے میں نیکٹا اور ایف آئی اے سے شیئر کرسکتی ہے۔

اسی کے ساتھ سی ٹی ڈی پولیس اس بات پر بھی غور کررہی ہے کہ وہ اسٹیٹ بینک سے ان مدارس کے اکاؤنٹس کی تفصیلات کی فراہمی کے لیے بھی مدد طلب کرے جن کے بارے میں نشاندہی کی جاچکی ہے کہ وہ کالعدم تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

اس حوالے سے موبی لنک کے عمر منظور نے ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پہلے سے ہی ریگولیٹرز کی جانب سے واضح کیے گئے قواعد و ضوابط پر عمل پیرا ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب تک انھیں نہ تو کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے یا کسی ریگولیٹر ہی کی جانب سے شکایت موصول ہوئی ہے۔

عمر منظور یقین رکھتے ہیں کہ رائج طریقہ کار کے مطابق اور قوانین کے تحت رقم کی ہر منتقلی کے قوائد کی تصدیق کی جاتی ہے۔

سندھ پولیس کی تربیت

خیال رہے کہ سی ٹی ڈی چیف ڈاکٹر ثناء اللہ عباسی کی جانب سے وزارت داخلہ کو لکھے گئے خط میں اس کی جانب بھی توجہ دلوائی گئی ہے کہ مالی جرائم کی روک تھام کیلئے پولیس کو مناسب تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

سی ٹی ڈی چیف نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ 'دہشتگردوں کو مالی سہولت فراہم کرنے والے نیٹ ورک کے بارے میں سراغ لگانے کیلئے سی ٹی ڈی سندھ کے افسران کے پاس مناسب تربیت موجود نہیں ہے'۔

انھوں نے نیکٹا کو تجویز پیش کی کہ اس حوالے سے سی ٹی ڈی کے افسران کو تربیت فراہم کرنے کا بندوبست کریں۔

اس کے علاوہ یہ تجویز بھی بھیجی گئی ہے کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے حوالے سے سندھ پولیس کے افسران کی تربیت کیلئے پہلے سے موجود کیس کے مطالعہ کو نیکٹا کی جانب سے سندھ پولیس کو فراہم کیا جانا چاہیے۔

یہ رپورٹ 31 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں