کراچی: وفاقی وزیر برائے پورٹ اینڈ شپنگ سینیٹر میر حاصل خان بزنجو کا کہنا ہے کہ 'اگر ہم نے مچھلی کاشکار یوں ہی جاری رکھا، جیسا کہ ہم کررہے ہیں، تو ہماری آئندہ آنے والی نسلیں مچھلیاں صرف ایکوریم یا مچھلی گھر میں ہی دیکھ پائیں گی کیونکہ ہمارے پانی سے سمندری مخلوق ناپید ہوجائے گی'۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) ہیڈ آفس میں گہرے سمندر سے متعلق 'فشریز وسائل کا تعین منصوبے کے نتائج' کے موضوع پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) اور میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی (ایم ایس اے) نے ہماری سمندری حدود کا ایک وسیع سروے کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نہیں چاہتے کہ مذکورہ رپورٹ کو شیلف میں رکھ دیا جائے اس لیے ہم نے اسے تمام اسٹیک ہولڈرز سے شیئر کیا ہے تاکہ انھیں خبردار کیا جاسکے کہ اگر انھوں نے اپنے جاری اقدام پر نظرثانی نہ کی تو انھیں کیا نتائج برداشت کرنا پڑ سکتے ہیں، ہمارے سمندری حیاتیات تیزی سے کم ہورہی ہیں'۔

صورت حال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 'سب سے بڑا مسئلہ گِل کے جال اور اس کے استعمال کا ہے خاص طور پر کریک کے علاقوں میں، گِل کے جال پر بین الاقوامی طور پر پابندی عائد ہے اور اور ہم انھیں بغیر جانچ پڑتال کے استعمال کررہے ہیں، کیونکہ اس کی وجہ سے ہماری سمندری حیات کا ایک بڑا حصہ پہلے سے ہی ناپید ہوچکا ہے اور باقی معدوم ہونے کے راستے پر ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کیونکہ آپ مذکورہ جال سے نہ صرف مچھلی پکڑ لیتے ہیں بلکہ اس کے استعمال سے ان کے انڈے اور ان کی خوراک بھی کم ہوجاتی ہے، جس میں چھوٹی مچھلیاں اور دیگر آبی حیات بھی شامل ہے، اور اس لیے کہ یہ ایک منفع بخش کام نہیں ہوتا اسے مچھلیوں کی خوراک اور مرغی کی فیڈ کیلئے بیچ دیا جاتا ہے'۔

وفاقی وزیر برائے پورٹ اینڈ شپنگ کا کہنا تھا کہ 'ہر قسم کے نقصان دہ طرز عمل کی آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے صوبہ سندھ اور بلوچستان کی حکومت کو ہماری سمندری حیات کو بچانے کیلئے خصوصی اقدامات کرنے ہوں گے، جس موسم میں مچھلیوں کی افزائش ہوتی ہے اس میں مچھلی کے شکار پر مکمل پابندی ہونی چاہیے، اور اس پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے، اس حوالے سے قوانین پر عمل درآمد کرانے کیلئے دونوں صوبائی حکومتوں کے وزراء اعلیٰ کو سروے رپورٹ بھیج رہے ہیں، اس حوالے سے پہلے ہی ایک رپورٹ وزیراعظم کو بھجوائی جاچکی ہے'۔

جب وفاقی وزیر سے پوچھا گیا کہ ایران اور بھارت کے مچھیرے بھی پاکستان کی سمندری حدود میں شکار کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ہماری سمندری حدود میں ان دونوں ممالک کے مچھلی شکار کرنے والے ٹرالروں سے اس قدر نقصان نہیں ہوتا جس قدر ہمارے ٹرالروں کی جانب سے مچھلی کا شکار کرنے پر ہورہا ہے۔

ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ کریک کے علاقوں میں شکار کرنے والے غریب مچھیروں کے پاس گِل کے جال نہیں ہوتے اور نہ وہ گہرے سمندر میں ہی شکار کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'گہرے سمندر میں مچھلی کاشکار کرنے والے ٹرالروں کو زمین سے 12 ناٹیکل میل کی حدود میں شکار کی اجازت نہیں ہے'۔

اس موقع پر یہ بھی واضح کیا گیا کہ سال 2005 کے بعد سے کسی بھی غیر ملکی فرم کو وفاقی حکومت کی جانب سے گہرے سمندر میں شکار کا لائسنس جاری نہیں کیا گیا۔

اس سے قبل متعدد مقامی مچھیروں نے کے پی ٹی کی عمارت کے باہر جمع ہوکر گہرے سمندر میں مچھلی کے شکار کے خلاف احتجاج کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اچھی طرح واقف ہیں کہ گہرے سمندر کے ٹرالر ہمارے پانی میں مچھلی کا شکار کرکے کس قدر نقصان پہنچا رہے ہیں۔

مظاہرین نے پلے کارڈ اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر گہرے سمندر میں شکار کے نقصانات کے علاوہ اس کی روک تھام کیلئے نعرے درج تھے۔

یہ رپورٹ 4 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں