اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل جاری رکھے۔

نعیم بخاری نے عدالت کے سامنے نواز شریف اور ان کے بچوں کے بیانات میں تضاد کی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ بیئرر سرٹیفکیٹ پرائز بانڈ نہیں ہوتا، جس کے پاس ہو، آف شور کمپنی اس کی ہوگی اور قانون کے مطابق بیئرر سرٹیکفیٹ سے متعلق آگاہ کرنا ضروری ہے، ساتھ ہی شریف خاندان کو سرٹیفکیٹ کا قطری خاندان کے پاس ہونے کا ثبوت بھی فراہم کرنا ہوگا۔

اس موقع پر جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ غالباً یہ قانون 2002 میں آیا تھا، جس پر جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ کیا اس قانون کا اطلاق پہلے سے قائم کمپنیوں پر بھی ہے؟

نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ بلیک لاء ڈکشنری کے مطابق زیرکفالت وہ ہوتا ہے جس کے اخراجات دوسرا برداشت کرے، مریم نواز کے پاس آف شور کمپنیوں کے لیے پیسہ نہیں تھا اور یہ رقم انہیں نواز شریف نے فراہم کی۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس: 'آرٹیکل 62، 63 سے متعلق ریمارکس واپس'

جس پر جسٹس شیخ عظمت کا کہنا تھا کہ حسین نواز نے بھی مریم نواز کو رقوم دی ہیں، اگر آپ کی تعریف مان لیں تو کیا مریم، حسین نواز کی بھی زیر کفالت ہیں؟

نعیم بخاری نے عدالت کو کہا کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ شادی کے بعد اس کی بیٹی کی کفالت شوہر کرے مگرریکارڈ کے مطابق کیپٹن صفدر کی کوئی آمدن نہیں تھی۔

جسٹس شیخ عظمت کا کہنا تھا کہ ابھی یہ یقین ہونا باقی ہے کہ فلیٹس کب خریدے گئے کیونکہ شریف فیملی کے بقول انہیں فلیٹ 2006 میں منتقل ہوئے اور آپ کے بقول شریف خاندان نے فلیٹ 1993 اور 1996 میں خریدے۔

بعد ازاں پی ٹی آئی کے وکیل نے اپنی کمر میں درد کے علاج کے لیے عدالت سے دو گھنٹے رخصت کی اجازت مانگی جس کے بعد عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے دلائل کا آغاز کیا۔

'قطری خط رضیہ بٹ کا ناول'

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ایک طرف مریم نواز کہتی ہے کہ ان کی آمدن نہیں دوسری طرف وہ امیر ترین خاتون ہیں، عدالت سب کچھ جانتی ہے ہم صرف معاونت کے لیے آتے ہیں اور یہ مقدمہ 20 کروڑ عوام کا ہے۔

عدالت کو مخاطب کرکے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ آپ نے انصاف فراہم کرنے کا حلف لیا ہے اور عوام کی نظریں عدالت پر ہیں۔

مزید پڑھیں: 'پاناما لیکس پر فیصلہ اسی مہینے میں آجائے گا'

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ وہ نعیم بخاری کے دلائل کی مکمل تائید کرتے ہیں اور اگر کوئی کسی کے زیر سایہ ہے تو وہ زیرِکفالت کہلائے گا۔

دوسری جانب سپریم کورٹ میں نشست نہ ملنے پر پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے عدالت سے شکوہ کیا کہ ایجنسیوں کے لوگ نشستیں قابو کر لیتے ہیں اور ہمیں عدالت کے باہر بھی کھڑے نہیں ہونے دیا جاتا۔

جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ آپ کی شکایت کا نوٹس لیں گے۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ وکالت کا تجربہ نہیں، غلطی ہو تو معافی چاہتا ہوں، میرا کوئی بچہ یا فیملی نہیں لیکن یہ قوم ہی میری فیملی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان قطری خط کے پیچھے چھپ رہا ہے جبکہ قطری خط رضیہ بٹ کا ناول ہے۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ نواز شریف پاناما کیس میں براہ راست ملوث ہیں اور اسحاق ڈار نے خود اربوں روپے دبئی منتقل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

شیخ رشید کے دلچسب دلائل پر عدالت میں قہقہے بلند ہونے پرجسٹس شیخ عظمت نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ عدالت میں موجود لوگ سنجیدہ ہوں، ورنہ عدالت خود سنجیدہ کرے گی۔

شیخ رشید کا مزید کہنا تھا کہ نیب حدیبیہ پیپرملز کیس میں اپیل کرتا تو آج سپریم کورٹ نہ آتے۔

ان کا کہنا تھا کہ بیوروکریسی نے کہا جو کرنا ہے کر لو، میں حلفیہ یہ کہتا ہوں کہ ساڑھے تین سال میں تمام تعیناتیاں وفاداری کی بنیاد پر ہوئیں اور تمام تحقیقاتی ادارے حکومت کی جیب میں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: نواز شریف کے حکومتی عہدوں کی تفصیلات پیش

شیخ رشید نے کہا کہ قطری نوازشریف کو انتخابات میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے انہیں قانونی باتوں پر آنے کا مشورہ دیا۔

شیخ رشید نے عدالت سے درخواست کی کہ اسحاق ڈار کو بھی شامل تفتیش کیا جائے جس پر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار پہلے ہی مقدمہ میں فریق ہیں۔

حکومتی وکیل کے دلائل

بعدازاں وزیراعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے اختتامی وقت میں دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 'میں سات روز سے دلائل سن رہا ہوں اور اب تمام حقائق سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں'۔

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ وہ خود کو صرف وزیراعظم تک محدود رکھیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں وزیر اعظم، اسحاق ڈار اور کیپٹن صفدر کو نااہل کرنے کی درخواستیں کی گئی ہیں اور جواب دہندگان سے ٹیکس وصولی کی عمومی استدعا کی گئی ہے مگر ٹیکس وصولی کس شخص سے کرنی ہے یہ بھی نہیں بتایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے میگا کرپشن کیسز کی تحقیقات کی بھی استدعا کی ہے جبکہ میگا کرپشن کیسز سپریم کورٹ میں زیر التواء ہیں۔

وزیر اعظم کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی استدعا کی گئی مگر پی ٹی آئی کے دلائل میں ای سی ایل کا ذکر کہیں نہیں کیا گیا، جس استدعا پر زور نہ دیا جائے وہ خود ہی ختم ہو جاتی ہے۔

جسٹس آصف کھوسہ نے وکیل مخدوم علی خان کو جواب دیا کہ پی ٹی آئی کو لندن فلیٹس تک محدود رہنے کا کہا گیا تھا کیونکہ کسی کی پوری زندگی کی سکروٹنی نہیں کی جاسکتی۔

جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ 2006 سے پہلے کیا ہوتا رہا اس بارے میں وکیل مخدوم علی خان کو بتانا ہوگا لیکن وہ صرف اپنے مؤکل نواز شریف تک محدود رہیں۔

'فیصلہ جلد سامنے آئے گا'

سماعت میں وقفے کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما نعیم بخاری نے امید ظاہر کی کہ سپریم کورٹ جلد ہی کیس کا فیصلہ سنادے گا اور یہ فیصلہ پاناما کا سچ قوم اور دنیا کے سامنے ظاہر ہوجائے گا۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ قطری شہزادےکو فلیٹس کی ملکیت ظاہرکرنی ہوگی کیونکہ نائن الیون کے بعد بیریئرسرٹیفکیٹس کی رجسٹریشن لازمی قراردی گئی تھی۔

'سارے نعرے کھوکھلے ہیں'

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال گیلانی کا میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کل نعیم بخاری کہہ گئے تھے وکیل نہیں مؤکل ہارتا ہے مگر آج ہم نے وکیل کو ہارتے دیکھا، ہم دعا کرتے ہیں اللہ نعیم بخاری کو صحت اور ہدایت دے۔

انہوں نے شیخ رشید کی غیرسنجیدگی پر عدالت کے برہم ہونے کا حوالہ بھی دیا۔

ساتھ ان کا کہنا تھا یہ پہلا الیکشن ہے جس پر سپریم کورٹ کی مہر ہے کہ اس میں دھاندلی نہیں ہوئی اور اس میں منتخب وزیراعظم کے خلاف الزمات لگائے جارہے ہیں کیونکہ اب عمران خان کو کیس جیتنے کا راستہ نظر نہیں آریا۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے سارے نعرے کھوکھلے ہیں۔

سماعت کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو میں طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ نعیم بخاری نے بے جان کیس میں جان ڈالنے کی بہت کوشش کی لیکن گذشتہ روز دبے الفاظ میں وہ بھی کیس کا فیصلہ بتاچکے ہیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز عدالت کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو فی البدیہہ بیان پر نااہل قرار دینا ملکی عدلیہ کی تاریخ میں ایک خطرناک مثال قائم کرنے کے مترادف ہوگا۔

جسٹس اعجاز افضل خان نے سماعت کے دوران کہا تھا کہ ہم سب انسان اکثر بنا سوچے سمجھے باتیں کہہ جاتے ہیں مگر ایسے کسی بیان پر وزیراعظم کو نااہل قرار دینا ایک خطرناک مثال قائم کرنےجیسے ہوگا۔

انہوں نے یہ بات پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل نعیم بخاری کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف کے عوام سے خطاب اور پارلیمنٹ میں کیے جانے والے خطاب میں قطری شہزادے کے خط کا ذکر نہ ہونے اور بعد ازاں خط کے اچانک سامنے آنے کے اعتراض پر کہی۔

جسٹس آصف کھوسہ نے عوامی نمائندوں کی اہلیت اور نااہلی سے متعلق آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے اطلاق پر اپنی آبزرویشن واپس لیتے ہوئے ندامت کا اظہار بھی کیا تھا۔

یاد رہے کہ گذشتہ سماعتوں کے دوران وکلاء کے دلائل ہر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آبزرویشن دی تھی کہ اگر آرٹیکل 62 اور 63 لاگو کردیا جائے تو پارلیمنٹ میں صرف امیر جماعت اسلامی سراج الحق ہی بچیں گے۔

گذشتہ روز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حدیبیہ پیپز ملز کے معاملے پر 300 صفحات پر مشتمل مزید دستاویزات بھی سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی تھیں، جن میں حدیبیہ پیپر ملز کے قانونی کاغذات سمیت لندن میں کی گئی قانونی جنگ کے کاغذات شامل تھے، تحریک انصاف کی جانب سے استدعا کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ ان اضافی دستاویز کو ریکارڈ کا حصہ بنائے۔

مزید پڑھیں: حدیبیہ ملز کیس: پی ٹی آئی کو نیب ریفرنس دائر کرنے کا مشورہ

تاہم سپریم کورٹ نے ایک بار پھر پی ٹی آئی کو حدیبیہ پیپرزمل ریفرنس خارج ہونے کے خلاف اپیل کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) سے رجوع کرنے کی ہدایت جاری کردی تھی۔

دوسری جانب جماعت اسلامی نے بھی سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف کو عدالت طلب کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔

جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالت میں اب تک کی گئی بحث کا موضوع وزیراعظم نواز شریف ہیں اور پاناما کیس میں تمام انگلیاں وزیراعظم اور ان کے خاندان کی طرف اٹھ رہی ہیں، لہذا ملک سے باہر رقوم منتقل کرنے کے بارے میں وزیراعظم ہی صحیح بتاسکتے ہیں۔

یاد رہے کہ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جبکہ نئے چیف جسٹس ثاقب نثار 5 رکنی لارجر بینچ کا حصہ نہیں۔

لارجر بینچ میں جسٹس آصف کھوسہ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔

واضح رہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں