اسلام آباد: پاناما لیکس کے معاملے پر دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے قطری سرمایہ کاری کو اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ 1993 سے 1996 میں لندن فلیٹس کا مالک کون تھا، فلیٹس کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا اور شریف فیملی کے بچے وہاں کیسے رہ رہے تھے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو وزیراعظم کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل کا دوبارہ آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ریکارڈ سے ثابت ہے کہ گلف فیکٹری کی فروخت سے 12 درہم ملین ملے۔

جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ بینک کے واجبات کس نے ادا کیے، جس پر وکیل نے بتایا کہ ہو سکتا ہے فیکٹری کے منافع سے واجبات ادا کیے گئے ہوں۔

جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ کیا 75 فیصد فروخت پر بینک کو قرضے کی ادائیگی ہوئی؟

جس پر سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ 75 فیصد حصص کی فروخت سے ملنے والی 21 ملین درہم قرض کی مد میں ادا کیے۔

جس پر جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ فیکٹری کے باقی واجبات کا کیا ہوا؟

وکیل نے بتایا کہ کاروبار پر کنٹرول میاں شریف کا تھا اور طارق شفیع گلف فیکٹری کے روزانہ کے معاملات نہیں دیکھتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما کیس: 'ن لیگ منی ٹریل دی چکی ہے'

جسٹس کھوسہ نے سوال کیا کہ وزیراعظم کی تقریر کے مطابق سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 6 نئی فیکٹریاں لگانے کا ذکر ہے جبکہ جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ جب پاکستان میں 6 نئی فیکٹریاں لگائیں تو گلف فیکٹری کی کیا ضرورت تھی۔

انھوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم کی تقریر میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں۔

جس پر سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ دبئی مل ایک حقیقت ہے اور جدہ کی مل، دبئی فیکٹری کی مشینری سے تیار کی گئی اور بعدازاں اس میں نئی مشینری بھی لگائی گئی۔

جسٹس کھوسہ نے سوال کیا کہ کیا دبئی فیکٹری کی مشینری حسین نواز نے خریدی تھی، کیونکہ مشینری کی خریدوفروخت کا وزیراعظم نے کہیں ذکر نہیں کیا۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ طارق شفیع کے بیان حلفی کے بعد دوسرے بیان حلفی میں بہتری لائی گئی۔

سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ 7 نومبر کے تحریری جواب میں دبئی فیکٹری میں 12 ملین درہم کی سرمایہ کاری کا ذکر ہے۔

قطری سرمایہ کاری اہم

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس کہانی کا اہم حصہ قطری سرمایہ کاری ہے، اگر طارق شفیع کو قطری سرمایہ کاری کا علم تھا تو بیان حلفی میں ذکر کر دیتے، کیا یہ سب دانستہ طور پر کیا گیا؟

جس پر ایڈووکیٹ سلمان اکرم نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں قطری شاہی خاندان شامل تھا اس لیے 7 نومبر کے جواب میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا گیا اور بعدازاں قطری خاندان کی رضا مندی کے بعد قطر میں سرمایہ کاری کا موقف سامنے لایا گیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 5 نومبر کو قطری خط آیا جبکہ طارق شفیع کا بیان حلفی 12 نومبر کو آیا، سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا جبکہ حسین نواز کا موقف تھا کہ لندن فلیٹس قطری سرمایہ کاری سے ملے۔

جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ یہاں جرح نہیں ٹرائل ہو رہا ہے، طارق شفیع کو کٹہرے میں بلا کر کر سوالات پوچھ لیے جائیں، ایسا نہیں کہ ان سوالوں کے جوابات نہیں ہیں، 12 ملین درہم کی رقم الثانی فیملی کو چھ اقساط میں سرمایہ کاری کے لیے دی گئی۔

مزید پڑھیں:'قطر کے شاہی خاندان کو 12 ملین درہم دیے تھے'

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ فیکٹری کی فروخت سے 12 ملین درہم ملے یہ غیر متنازع حقائق ہیں، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ہر معاہدے میں بینک کا ذکر ہے، لیکن 12 ملین درہم کیش میں لیے گئے۔

جس پر ایڈووکیٹ سلمان اکرم نے جواب دیا کہ یہ کوئی اچنبهے کی بات نہیں، نقد رقم بهی لی جاتی ہے۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ پاناما کا مقدمہ اپنی نوعیت کا کیس ہے اور جو دستاویز لائی گئیں اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا۔

اس موقع پر سلمان اکرم نے کہا کہ گذشتہ روز عدالت عظمیٰ میں 12 ملین درہم اونٹوں پر لے جانے کی بات کی گئی، 1980 میں دبئی میں 1000 درہم کا نوٹ موجود تھا اور یہ اتنی بڑی رقم نہیں کہ اونٹوں پر لے جائی جاتی، بڑے نوٹوں میں ادائیگی کی جائے تو کرنسی کا حجم میری ان دو کتابوں سے زیادہ نہیں ہو گا، کرنسی اونٹوں پر لاد کر دینے کی بات بعید از قیاس ہے۔

سلمان اکرم نے مزید بتایا کہ شریف فیملی کا جہاز کراچی بندرگاہ پر روک لیا گیا تھا جس سے 50 کروڑ کا نقصان ہوا، شریف خاندان نے 1993 سے 1996 میں لندن کے فلیٹس نہیں خریدے، لندن فلیٹس کی 1993 سے 1996 میں مجموعی پاکستانی مالیت 7 کروڑ بنتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ 1993 سے 1996 میں آف شور کمپنیوں کا مالک کون تھا؟

سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ شریف فیملی اُس وقت آف شور کمپنیوں کی مالک نہیں تھی، شریف فیملی نے فلیٹس 2006 میں خریدے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ 2006 سے پہلے کمپنیوں کے بیریئر سرٹیفکیٹس قطر کے الثانی خاندان کے پاس تھے، الثانی خاندان نے 1993 سے 1996 میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے فلیٹس خریدے۔

جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ شہزادہ حماد بن جاسم سے پوچھ لیں کہ انہوں نے یہ فلیٹس کب خریدے؟

جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ یہ فلیٹس شریف فیملی کے زیر استعمال کب آئے؟

ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ یہ کوئی راز نہیں، شریف فیملی کے بچے شروع سے وہاں رہ رہے ہیں۔

جج صاحبان نے استفسار کیا کہ شریف فیملی کے بچے وہاں کیسے رہ رہے تھے؟

جس پر ایڈووکیٹ سلمان اکرم نے عدالت کو بتایا کہ خاندانی تعلقات کی بدولت 1993 میں ان فلیٹس میں حسن اور حسین نے رہائش اختیار کی اور بعد میں یہ فلیٹس کاروباری معاہدے کے نتیجے میں قطریوں نے شریف خاندان کے حوالے کیے۔

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ شریف فیملی 13 سال تک فلیٹس میں رہائش پذیر رہی، بڑے گہرے تعلقات تھے.

جس پر سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ شریف خاندان فلیٹس کا کرایہ ادا کرتا تھا۔

انھوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ الثانی خاندان کے پاس لندن میں بہت سے فلیٹس ہیں، عدالت مفروضوں کو نہ دیکھے۔

سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ لندن فلیٹس التوفیق کمپنی کے پاس گروی نہیں رکھے گئے، شیزی نقوی نے رحمٰن ملک رپورٹ کی بنیاد پر فلیٹس کی ملکیت شریف خاندان کی بتائی۔

مزید پڑھیں:پاناماکیس: 'فیصلے سے قبل وزیراعظم خود مستعفیٰ ہوجائیں'

جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا شیزی نقوی پاکستانی شہری ہے، جس پر سلمان اکرم نے بتایا کہ شیزی نقوی پاکستانی ہے اور ابھی تک التوفیق کمپنی کے ساتھ وابستہ ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا شیزی نقوی کے بیان حلفی کی نقل کاپی موجود ہے، جس پر سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ نقل کی کاپی موجود ہے لیکن تصدیق شدہ نہ ہونے کی وجہ سے فائل نہیں کی۔

جسٹس عظت نے ہدایت کی شیزی نقوی کے برطانوی عدالت میں دیئے گئے بیان حلفی کی نقل جمع کرا دیں۔

ایڈووکیٹ سلمان اکرم نے بتایا کہ برطانوی عدالت نے شیزی نقوی کے بیان حلفی پر فلیٹس ضبطگی کا نوٹس جاری کیا تھا۔

جسٹس عظمت نے استفسار کیا کہ برطانوی عدالت کا حکم عبوری تھا، کیا دوسری پارٹی کی عدم موجودگی پر یہ حکم دیا گیا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا رقم ادائیگی پر برطانیہ کی عدالت نے چارج واپس لیا؟

سلمان اکرم راجا نے دلائل دیئے کہ التوفیق کیس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ شریف فیملی 1999 سے پہلے فلیٹس کی مالک تھی۔

اس موقع پر جج صاحبان نے سوال کیا کہ آپ کہتے ہیں فلیٹس 2006 میں خریدے گئے، آپ 13 سال تک فلیٹس میں رہے انگلی تو آپ کی طرف اٹھے گی۔

جس پر سلمان اکرم نے جواب دیا کہ انگلی میرے موکل کی طرف نہیں اٹھ سکتی وہ اپنے موقف پر قائم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: قطری شہزادے کا خط اور وزیراعظم کا موقف مختلف: سپریم کورٹ

سلمان اکرم نے عدالت کو بتایا کہ التوفیق کمنی نے 16 ملین ڈالر قرض کے لیے برطانوی عدالت میں مقدمہ کیا، تاہم 8 ملین ڈالرز قرض کی سیٹلمنٹ ہوئی۔

جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ قرض کے لیے کیا گارنٹی دی گئی، جس پر سلمان اکرم نے بتایا کہ حدیبیہ مل کی مشینری کو بطور گارنٹی رکھا گیا۔

جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ جب التوفیق کمپنی سے سیٹلمنٹ ہوئی کیا حسن اور حسین برطانیہ میں تھے؟ عدالت عظمیٰ کو بتایا گیا کہ حسین نواز پاکستان میں حراست میں تھے جبکہ حسین نواز کو سیٹلمنٹ کا مکمل علم نہیں کیونکہ یہ 2000 کے اوائل میں ہوئی تھی، اس عرصے میں صرف میاں شریف رائیونڈ میں تھے۔

اس موقع پر جسٹس عظمت نے سوال اٹھایا کہ جب ساری فیملی حراست میں تھی تو 8 ملین ڈالرز کی رقم کیسے ادا کی گئی؟ مطلب یہ ہے کہ 8 ملین ڈالرز شریف فیملی نے ادا نہیں کیے۔

اس موقع پر سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ جو معاملہ قطری شہزادے شیخ جاسم اور میاں شریف کے درمیان تھا اس کی توقع نہ کی جائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا 80 سے 85 برس کی عمر میں میاں شریف نے سرمایہ کاری سے متعلق اپنے بچوں کو آگاہ نہیں کیا تھا، سرمایہ کاری کی رقم 20 سال قطر میں پڑی رہی، کاروباری شراکت دار نے تفصیلات کیوں نہیں دیں۔

اس موقع پر ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ اگر حسین نواز کچھ چھپا رہے ہوں تو کیا اس کی سزا وزیراعظم کو دی جا سکتی ہے؟ دوسری طرف سے کوئی شواہد نہیں آئے، لہذا وزیراعظم کی تقریر کو مسترد نہیں کر سکتے۔

جس پر جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کے پہلے وکیل نے تقریر کو سیاسی کہا، مخدوم علی خان نے بہتر الفاظ استعمال کیے اور کہا کہ تقریر عمومی نوعیت کی تھی۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اگر نتیجے پر پہنچیں تو حسین نواز نے پورا سچ نہیں بولا، اگر جان بوجھ کر چھپایا گیا تو پھر کیا کریں؟

جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ جائیداد بچوں کی ہے ان سے پوچھیں، جب مریم نواز سے پوچھا تو انہوں نے کہا وہ ٹرسٹی ہیں اور اب آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس بھی کچھ نہیں، اگر آپ نے عدالت کو کچھ نہیں بتانا اور یہ کہنا ہے کہ کرلیں جو کرنا ہے، تو آپ بہت بڑا جوا کھیل رہے ہیں ۔

جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ میاں شریف کی رقم جو قطری رئیل سٹیٹ بزنس میں گئی کیا اس سے فلیٹ خریدے گئے یا پھر الثانی فیملی نے مشترکہ کاروبار سے فلیٹ خریدے اور کیا اس رقم میں میاں نواز شریف کا کوئی حصہ تھا، کیونکہ 2004 میں میاں شریف کی وفات ہوئی اور 2006 میں فلیٹ منتقل ہوئے۔

بعدازاں کیس کی سماعت کل بروز بدھ (یکم فروری) تک کے لیے ملتوی کردی گئی جہاں سلمان اکرم راجا اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

صفحات گم ہونے کے ریمارکس

کیس کی سماعت کے دوران ایک موقع پر جسٹس کھوسہ نے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا نام لیے بغیر کہا کہ میں نے ایک ریمارکس میں کتاب میں صفحہ گم ہونے کی بات کی تھی، جس پر ایک محترم رکن اسمبلی نے بہت ڈانٹا تھا کہ سارے ثبوت موجود ہیں اور نظر نہیں آرہے۔

یاد رہے کہ پاناما کیس کی ایک سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ ان کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے تھے کہ 'اس کتاب کے کئی صفحات گم ہیں'۔

حدیبیہ ریفرنس کے فیصلے پر اپیل نہ کرنے کا ریکارڈ جمع

اس سے قبل نیب پراسیکیوٹر نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس پر عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہ کرنے کا ریکارڈ پیش کیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو پراسیکیوٹر جنرل نیب وقاص ڈار نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس پر اپیل دائر نہ کرنے سے متعلق اجلاس کی کارروائی کے منٹس جمع کروائے۔

جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ ایسے کتنے مقدمات ہیں جن میں اپیل دائر نہیں کی گئی؟

جس پر پراسیکیوٹر جنرل نیب وقاص نے جواب دیا کہ ایسے لا تعداد مقدمات ہیں جن میں ججز کے فیصلے میں اختلاف کی وجہ سے اپیل دائر نہیں کی گئی.

مزید پڑھیں:پاناما کیس: معافی کے بعد اسحٰق ڈار ملزم نہیں رہے،سپریم کورٹ

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ایسے بہت سے مقدمات بھی ہیں جن میں ججز نے متفقہ فیصلہ دیا لیکن نیب نے اپیل دائر کی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جب نیب کی باری آئے گی تو اس پہلو کو زیر غور لائیں گے۔

وقاص ڈار نے بتایا کہ پراسیکیوٹر نیب نے اپیل دائر نہ کرنے کی تجویز دی، جس سے چیرمین نیب نے اتفاق کیا۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز پراسیکیوٹر جنرل نیب وقاص نے عدالت کو بتایا کہ نیب کے اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اپیل دائر نہیں کی جائے گی جبکہ 20 اپریل کو اسحٰق ڈار نے معافی کی درخواست دی تھی۔

جس پر عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل سے نیب کے اُس اجلاس کی تفصیل طلب کرلی تھی جس میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ حدیبیہ پیپر ملز کی اپیل دائر نہیں کی جائے گی۔

گذشتہ سماعت

پاناما کیس کی گذشتہ روز یعنی 30 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس میں اسحٰق ڈار کی معافی سے متعلق طلب کیا گیا ریکارڈ عدالت میں جمع کروایا گیا تھا۔

نیب ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے تھے کہ اسحاق ڈار نے چیئرمین نیب کو معافی کی تحریری درخواست خود دی تھی اور معافی مل جانے کے بعد وہ ملزم نہیں رہے۔

دوسری جانب گذشتہ روز وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے کیس کے تین پہلو ہیں اور وہ تینوں پہلوؤں پر دلائل دیں گے۔

سلمان اکرم راجا کے مطابق حسین نواز لندن فلیٹس کے بینیفیشل مالک ہیں اور نواز شریف کا لندن فلیٹس سے کوئی تعلق نہیں، جبکہ الزام یہ ہے کہ حسین نواز بے نامی دار ہیں اور اصل مالک نواز شریف ہیں۔

سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا تھا کہ پیسہ پاکستان سے دبئی نہیں گیا اور اگر کسی کے پاس حقائق ہیں تو سامنے لائے۔

یاد رہے کہ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔

پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں