اسلام آباد: پاناما لیکس کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ شریف خاندان کی جانب سے لندن میں خریدی جانے والی جائیداد کی ایک نئی وضاحت سامنے آنے پر زیادہ خوش نہیں جبکہ عدالت کا یہ موقف بھی سامنے آیا کہ فریقین اپنی پوری کوشش کررہے ہیں کہ عدالت عظمیٰ بالآخر پاناما گیٹ کیس کا فیصلہ کرنے کے لیے کمیشن قائم کردے۔

سماعت کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ کی جانب سے سابق قطری وزیر اعظم کا تصدیق شدہ خط پیش کیے جانے کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ’اس دستاویز نے وزیر اعظم کے عوام کے سامنے دیے گئے موقف کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے‘۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ کے رکن جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ’یہ تو سب سنی سنائی باتیں ہیں‘۔

جیسے ٹوپی میں سے خرگوش نکالا جاتا ہے ویسے ہی اکرم شیخ نے ایک دستاویز نکالی جس پر 5 نومبر 2016 کی تاریخ درج ہے، نجی اور بصیغہ راز کا لیبل لگا ہوا ہے جبکہ یہ بھی لکھا ہے کہ اسے کسی بھی فریق کے سامنے افشاء نہ کیا جائے ماسوائے پاکستانی عدلیہ کے فائدے کے لیے، یہ خط حماد بن جاسم بن جابر الثانی کے لیٹر ہیڈ پر لکھا ہوا ہے جنہوں نے 2007 سے 2013 تک قطر میں حکمرانی کی۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس: وزیراعظم اور بچوں نے دستاویزات جمع کرادیں

تاہم عدالت اس سے زیادہ متاثر نہیں ہوئی، جسٹس کھوسہ نے کہا کہ یہ دستاویز محض چند دنوں پہلے کی ہے نہ کہ 30 سال پرانی، ساتھ ہی انہوں نے اکرم شیخ سے استفسار کیا کہ وہ شخصیت جنہوں نے اس دستاویز پر دستخط کیے ہیں اگر انہیں جرح کے لیے عدالت طلب کرے تو کیا وہ پیش ہوں گے؟

اکرم شیخ نے عدالت کے روبرو اس سوال کا جواب نہیں دیا تاہم میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سابق قطری وزیر اعظم اگر ضرورت پڑی تو عدالت میں بھی پیش ہوسکتے ہیں۔

عدالت میں پیش کیے گئے قطری شہزادے حماد بن جاسم بن جابر الثانی کے تحریری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ 'میرے والد اور نواز شریف کے والد کے درمیان طویل عرصے سے کاروباری تعلقات تھے، میرے بڑے بھائی شریف فیملی اور ہمارے کاروبار کے منتظم تھے۔'

'1980 میں نواز شریف کے والد نے قطر کی الثانی فیملی کے رئیل اسٹیٹ بزنس میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش ظاہر کی، میرے خیال میں 12 ملین درہم نواز شریف کے والد نے ہمارے کاروبار میں لگائے، جو انھوں نے دبئی میں اپنے بزنس کو فروخت کرکے حاصل کیے تھے۔'

حماد بن جاسم بن جابر الثانی نے مزید کہا کہ 'لندن کے 4 فلیٹس (16، 16اے ، 17 اور 17 اے ایون فیلڈ ہاؤس، پارک لین ، لندن)دو آف شور کمپنیوں کے نام رجسٹرڈ تھے، ان آف شور کمپنیوں کے شیئر سرٹیفکیٹ قطر میں موجود تھے، لندن کے فلیٹس قطر کے رئیل اسٹیٹ بزنس کے منافع سے خریدے گئے اور دونوں خاندانوں کے تعلقات کی بناء پر یہ فلیٹس شریف خاندان کے زیر استعمال تھے جس کا وہ کرایہ دیتے تھے۔'

مزید پڑھیں: پاناما لیکس: شریف خاندان کے خلاف شواہد سپریم کورٹ میں جمع

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'میرے خیال میں میاں نواز شریف کے والد نے اپنی زندگی میں ہی کاروبار حسین نواز کو دینے کی خواہش کی تھی، جس کے بعد 2006 میں الثانی فیملی اور حسین نواز کے درمیان لندن پراپرٹی کے معاملات طے پائے۔'

تاہم چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ عدالت اس دستاویز کی شہادتی حیثیت کا جائزہ بعد میں لے گی۔

جسٹس کھوسہ نے اکرم شیخ سے پوچھا کہ ’کیا آپ اس دستاویز کے مضمرات سے واقف ہیں؟ یہ کہہ رہی ہے کہ حماد بن جاسم کا کوئی کردار نہیں اور ان کے والد اتنے سخی اور ہمدرد تھے کہ انہوں نے پیسے میاں شریف کو دے دیئے‘۔

جسٹس کھوسہ نے ایک بار پھر پوچھا کہ ’جائیدادوں کے حوالے سے آپ کے پاس اس خط کے علاوہ او کوئی ثبوت نہیں‘؟

انہوں نے کہا کہ چونکہ نواز شریف ہر شہری کے وزیر اعظم ہیں، جو موقف عدالے میں پیش کیا گیا ہے وہ 16 مئی 2016 کو وزیر اعظم کی جانب سے پارلیمنٹ کے فلور پر اپنائے جانے والے موقف سے مختلف ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ لندن کے فلیٹس جدہ اسٹیل مل کی فروخت سے ہونے والی رقم سے خریدے گئے۔

لین دین کی تفصیلات

سپریم کورٹ میں 86 صفحات پر جمع کرائے جانے والے ضمنی بیان میں مریم، حسن اور حسین نواز نے دعویٰ کیا کہ متحدہ عرب امارات میں اسٹیل مل لگانے، اس میں سرمایہ کاری کرنے اور چلانے کے لیے کوئی رقم پاکستان سے وہاں منتقل نہیں کی گئی۔

دستاویز میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مریم نواز 2006 میں حسین نواز کے ساتھ طے پانے والے وقف نامے کے بعد ٹرسٹی بنیں لہٰذا 2006 کے بعد سے لندن کی جائیداد حسین نواز کی جائیداد بن گئیں۔

مزید پڑھیں: پاناما لیکس کیس: وزیراعظم کے بچوں نے جواب جمع کرادیئے

دستاویز میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح میاں شریف متحدہ عرب امارات آئے اور 1974 میں گلف اسٹیل ملز قائم کی۔

دستاویز میں بتایا گیا کہ میاں شریف نے اپنے بھتیجے محمد طارق شفیع اور ایک دوسرے شخص محمد حسین جو ملز میں ان کا پارٹنر تھا، کے ذریعے کاروبار کو آگے بڑھایا۔

جب محمد حسین انتقال کرگئے تو ان کے ورثاء نے اپنے حقوق اور واجبات طارق شفیع کو منتقل کردیے جو میاں شریف کے جانب سے شیئرز اپنے پاس رکھتے تھے۔

1978 میں میاں شریف نے دبئی کے ایک بینک کے ساتھ واجبات کی ادائیگی کا معاملہ طے کرنے کے لیے مل میں اپنے 75 فیصد شیئرز عبداللہ قاید اہلی کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد ملز کا نام اہلی اسٹیل ملز ہوگیا۔

1980 میں میاں شریف نے خود کو دبئ کے اسٹیل کے کاروبار سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے بقیہ 25 فیصد شیئرز بھی 12 ملین اماراتی درہم کے عوض فروخت کردیے جس کے بعد یہ رقم الثانی خاندان کو ان کے ریئل اسٹیٹ کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے دے دی گئی۔

یہ خبر 16 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں