اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاناما پیپز کے حوالے جاری کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے ایک کزن نے عدالت میں اقرار نامہ جمع کرادیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انھوں نے 12 ملین درہم (10 کروڑ 2 لاکھ درہم) نقد رقم کی صورت میں قطری شاہی خاندان کو ادا کیے تھے یہ رقم 1980 میں گلف اسٹیل مل کی فروخت کے ذریعے وصول کی گئی تھی۔

اقرار نامہ، جو وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز کے بیان کا حصہ بھی ہے، طارق شفیع کا کہنا تھاکہ انھوں نے محمد عبداللہ قائد اہلی سے وصول کرنے کے بعد یہ رقم قطر سے تعلق رکھنے والے شیخ فہد بن جاسم بن جابر التھانی کو ادا کی تھی۔

محمد عبداللہ قائد اہلی دبئی میں قائم اہلی اسٹیل کمپنی کے مالک ہیں یہاں طارق شفیع کے 25 فیصد شیئر موجود تھے۔

ان دونوں کے درمیان ہونے والے 14 اپریل 1980 کے ایک معاہدے کے تحت شفیع نے مذکورہ اسٹیل کمپنی میں موجود اپنے تمام شیئر فروخت کیے اور ان کے بدلے میں مجموعی طور پر 12 ملین درہم کی رقم وصول کی۔

یہ رقم انھوں نے وزیراعظم کے مرحوم والد میاں محمد شریف کے ہدایت پر التھانی خاندان کو ادا کی، اس موقع پر فہد بن جاسم بن جابر التھانی اپنے کاروبار کے سلسلے میں دبئی میں مقیم تھے، جہاں انھوں نے مذکورہ رقم وصول کی۔

خیال رہے کہ یہ دوسرا اقرار نامہ ہے، اس سے پہلے 12 نومبر 2016 کو جمع کرائے گئے اقرار نامے میں طارق شفیع کو دبئی میں موجود شریف خاندان کے تمام کاروبار کے مالک کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

اس اقرار نامے میں طارق شفیع کا کہنا تھا کہ میاں شریف نے انھیں 1974 میں گلف اسٹیل میں پاٹنر یا شیئر ہولڈر مقرر کیا تھا، اس وقت ان کی عمر 19 سال تھی۔

دوسری جانب حسین نواز نے اپنے تفصیلی بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کے دادا میاں شریف نے انھیں بتایا تھا کہ مرحوم شیخ جاسم بن جابر التھانی نے ان سے 12 ملین درہم کی رقم مانگی تھی اور ان کے دادا کو یقین دلایا تھا کہ انھیں جب بھی اس کی ضرورت بڑی تو یہ رقم واپس کردیں گے۔

اقرار نامے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ میاں شریف نے حسین نواز کو یہ بھی بتایا تھا کہ وہ نواز شریف کے بڑے صاحبزادے کو مذکورہ رقم کا جانشین مقرر کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ میاں شریف نے حسین نواز کو یہ بھی بتایا کہ وہ اپنی زندگی میں لمحہ بہ لمحہ التھانی خاندان کے ساتھ براہ راست اور ان کے بیٹے شیخ فہد بن جاسم بن جابر التھانی کے ذریعے رابطے میں تھے، ان میں موحوم شیخ جاسم بن جابر التھانی بھی شامل تھے، جن کا انتقال 1999 میں ہوا تھا۔

حسین نواز نے بیان میں کہا تھا کہ شیخ جاسم کی وفات کے بعد میاں شریف شیخ حماد بن جاسم بن جابر التھانی سے رابطے میں رہے تھے، وہ پہلے غیر ملکی تھے جنھوں نے پاکستان آکر ریٹائر جنرل پرویز مشرف سے نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی عمل میں نہ لانے کی سفارش کی تھی۔

مذکورہ اقرار نامے کے ساتھ شیخ حماد کا ایک خط بھی منسلک کیا گیا ہے جو اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ 1980 میں میاں شریف نے التھانی کے ریل اسٹیٹ کے کاروبار میں 12 ملین درہم سرمایہ کاری کی تھی۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ رقم نقدی کی صورت میں ادا گئی تھی جو اس وقت گلف ریاستوں میں ایک عام سی بات اور تجارت کا رواج تھا، جس سے ان کے والد اور میاں شریف کے درمیان طویل تعلقات قائم ہوئے۔

حسین نواز نے اپنے بیان میں وضاحت کی کہ 2001 سے 2003 کے درمیان میاں شریف نے 5.41 ملین ڈالر کا انتظام کیا تاکہ وہ (حسین نواز) العزیزیہ اسٹیل کمپنی لمیٹڈ میں سرمایہ کاری کرسکیں۔

بیان میں بتایا گیا کہ مذکورہ رقم ان کے دادا کی درخواست پر التھانی خاندان نے منتقل کی تھی، مذکورہ رقم کے علاوہ مالی اداروں سے حاصل کیے گئے قرضوں کی مدد سے سعودی عرب میں مکہ کے قریب اسٹیل تیار کرنے کا پلانٹ لگایا گیا۔

حسین نواز کے بیان میں کہا گیا تھا کہ ان کے دادا کی کوششوں سے سعودی حکومت زرعی زمین کو صنعتی استعمال کیلئے تبدیل کرنے پر رضا مند ہوگئی، جہاں عزیزیہ اسٹیل پلانٹ قائم کیا گیا۔

بعد ازاں 2005 میں 63 ملین سعودی ریال کے عوض اسٹیل کے مذکورہ کاروبار کو فروخت کردیا گیا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ 2005 میں ہی شیخ حماد نے میاں شریف کو التھانی خاندان کے ساتھ موجود سرمایہ کاری کے معاملات حل کرنے کی پیش کش کی۔

جس پر دونوں نے جدہ میں ملاقات کی جہاں یہ طے پایا کہ لندن انٹر بینک آفر ریٹ (ایل آئی بی او آر) کے تحت رقم کی واپسی کی جائے گی، اس کے علاوہ 1980 کے بعد سے بین الاقوامی قرضے کا ریٹ بھی مقرر کیا جائے گا اور التھانی خاندان کو اس کی ادائیگی پر غور کیا جائے گا جس میں بنیادی 3.257 ملین ڈالر کی رقم بھی شامل ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ حسین کو التھانی خاندان کے نمائندے نے بتایا کہ میاں شریف کی ہدایت پر 2000 میں التوفیق کمپنی میں سرمایہ کاری کیلئے 8 ملین ڈالر ادا کیے گئے تھے اور اسی کے برابر رقم التھانی خاندان نے حسین نواز کو ادا کرنا ہے۔

یہ رپورٹ 29 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jan 29, 2017 08:07pm
السلام علیکم: یہ بحرین اور پاکستان کے بہت ہی اچھے مسلمان تھے جو آپس میں کاروبار لندن میں مقررہ سود لندن انٹر بینک آفر ریٹ (ایل آئی بی او آر) کے تحت کررہے تھے! واہ بھئی واہ۔ خیرخواہ