اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کا بائیکاٹ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس حوالے سے حکومت کے ترمیمی بل کے منظور شدہ ڈرافٹ پر کسی بھی قسم کی غیر مشروط حمایت نہ کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔

پی پی پی، جس نے جمعرات کو قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا، حکومت کی جانب سے پارٹی کے چیف آصف علی زرداری سے براہ راست رابطے کے بعد مذکورہ اجلاس میں شرکت کیلئے رضا مندی ظاہر کردی۔

حکومتی اراکین کی جانب سے پارٹی کو اجلاس میں واپس لانے کیلئے کوششوں کی رپورٹس کے بعد پی پی پی کے پارلیمانی رہنما سید نوید قمر نے ڈان کو بتایا کہ 'جی ہاں، ہم جمعہ کے روز ہونے والے اجلاس میں شریک ہوں گے'۔

کسی کا نام لیے بغیر نوید قمر نے تصدیق کی کہ وہ اور پی پی پی کے دیگر اراکین سے، جن میں آصف زرداری بھی شامل ہیں، حکومت کے متعدد وزراء اور اعلیٰ عہدیداروں نے رابطہ کیا اور بائیکارٹ ختم کرنے کی درخواست کی۔

ان کا کہنا تھا کہ انھیں گرین سگنل دیا گیا ہے کہ ان کی پارٹی کے چیف اس اجلاس میں شرکت کرسکتے ہیں تاہم نوید قمر نے یہ واضح کیا کہ اس سے یہ بات اخذ نہ کی جائے کہ مذکورہ مسئلے پر پارٹی کے اصولی موقف میں تبدیلی آئے گی۔

حکومت اور اپوزیشن میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے بات چیت کی تھی جبکہ وفاقی کابینہ کے ایک سینئر رکن نے آصف علی زرداری سے رابطہ کیا تھا۔

اسی طرح، ذرائع کا کہنا تھا کہ جمیعت علماء اسلام (ف) کے چیف مولانا فضل الرحمٰن نے بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پی پی پی کی قیادت سے رابطہ کیا تھا۔

اس سے قبل، پارلیمانی رہنماؤں کے ان کیمرہ اجلاس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے تفصیلی بات چیت کرتے ہوئے سردار ایاز صادق نے دعویٰ کیا تھا کہ تمام جماعتیں فوجی عدالتوں کی بحالی پر متفق ہوگئی ہیں لیکن 'اس پر عمل درآمد کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ فوجی عدالتیں ملک کی ضرورت ہیں 'لیکن وہ مختلف چیزوں کیلئے وقت مقرر کرنا چاہتے تاکہ یہ فوجی عدالتیں مستقل حیثیت اختیار نہ کرلیں'۔

انھوں نے کہا کہ جماعتوں نے ان عدالتوں کی کارکردگی کی نگرانی کیلئے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن کے ممکنہ بائیکاٹ سے 'فوجی عدالتوں میں توسیع تعطل کاشکار'

خیال رہے کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے کے بعد جنوری 2015 میں شہریوں کو دہشت گردی کے قانون کے تحت ٹرائل کرنے کیلئے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لیا گیا تھا۔

اس وقت حکومت نے 'قومی اتفاق رائے' سے 2 سال کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے 21ویں آئینی ترمیم منظور کرائی تھی تاہم رواں سال 7 جنوری کو فوجی عدالتوں کے دو سال مکمل ہونے کے بعد یہ عملی طور پر غیر موثر ہوگئیں ہیں۔

علاوہ ازایں، پی پی پی، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے اعلان کیا تھا کہ وہ آئین میں ترمیم کیلئے حکومت کے منظور کردہ بل کی اس کی موجودہ حالت میں حمایت نہیں کریں گے۔

اپوزیشن رہنماؤں نے حکومت پر الزام لگایا تھا کہ اس نے انھیں اعتماد میں لیے بغیر اس میں تبدیلی کی جس کا مقصد بظاہر اپنی اتحادی جماعت جمیعت علماء اسلام (ف) کے ایماء پر ڈرافٹ میں حقائق کو تبدیل کرنا تھا، جس نے اس سے قبل اس ترمیمی بل کی مخالفت کی تھی تاہم اب نئے ترمیم شدہ بل کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 175 تھری میں ترمیم کرنے کے فیصلے پر اعتراض بھی کیا گیا، جس کے ذریعے فوجی عدالتوں کو ایسے تمام قیدیوں کے ٹرائل کا حق دیا گیا تھا 'جو کسی بھی دہشت گرد گروپ یا تنظیم سے ہوں گے اور مذہب یا فرقے کے نام کا استعمال کریں گے'۔

نئے ڈرافٹ میں حکومت نے الفاظ 'مذہب اور فرقے کے نام کا استعمال' کرنے کے الفاظ نکال دیے ہیں جس نے سیاسی جماعتوں میں خوف پیدا کردیا ہے کہ یہ قانون ان کے خلاف 'سیاسی انتقام' کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز کمیٹی میں جے یو آئی (ف) کی نمائندگی کرنے والی نعیمہ کشور نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ ان کی جماعت ڈرافٹ کی موجودہ صورت میں حمایت کیلئے تیار ہے۔

انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ اگر ڈرافٹ کو اس کی سابقہ حالت میں ترمیم کے لیے پیش کیا گیا تو جے یو آئی (ف) اس کی حمایت نہیں کرے گی۔

اس کے علاوہ فوجی عدالتوں میں 3 سال کی توسیع کی حکومتی تجویز کو بھی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے ان کا ماننا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ کو ان عدالتوں میں 15 ماہ سے زائد کی توسیع نہیں دینی چاہیے۔

پی پی پی کے ترجمان فرحت اللہ بابر سے رابطہ کرنے پر انھوں نے بتایا کہ آصف علی زرداری نے اس مسئلے پر اتفاق رائے قائم کرنے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلانے کا فیصلہ کیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اب تک ان کی جماعت اے پی سی کی حتمی تاریخ اور اس کے مقام کو حتمی شکل نہیں دے سکی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن اور آصف زرداری کے درمیان رابطے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ آیا ان دونوں رہنماؤں کے درمیان گذشتہ روز بات ہوئی ہے تاہم تصدیق کرسکتے ہیں کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان فاٹا اصلاحات کے مسئلے پر رابطہ ہوا ہے۔

بعد ازاں، پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور بیشتر شرکاء نے حکومت کو مذکورہ ڈرافٹ پیش کرنے پر زور دیا، جو 21 ویں آئینی ترمیم کیلئے بنایا گیا تھا۔

ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی چاہتی ہے کہ حکومت صحیح معائنوں میں ملک سے شدت پسندی کا خاتمہ کرے، انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ حالیہ دہشت گردی کے حملوں کے تناظر میں فوجی عدالتیں بحال کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

انھوں نے دہشت گردی کے خلاف ملک میں شروع کیے گئے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں ناکامی کے باعث حکومت پر پارلیمنٹ کے پیچھے چھپنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ 'حکومت کو دو ٹوک انداز میں یہ کہنا ہوگا کہ شدت پسندی کو ختم کرنا ان کی پہلی ترجیح ہے'۔

ایم کیو ایم رہنما نے مطالبہ کیا کہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی نگرانی کیلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت نے ماضی میں 21ویں آئینی ترمیم کی غیر مشروط حمایت کی تھی لیکن اس مرتبہ یہ مشروط ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم بلدیاتی حکومت کیلئے اختیارات چاہتی ہے اور ان کی جماعت وزیراعظم کے ساتھ وزیراعلیٰ سندھ سے بھی اس بات کی تحریری یقین دہانی چاہتی ہے کہ وہ ایسا کریں گے۔

ایم کیو ایم رہنما نے 'اچھے اور برے دہشت گردوں' کے درمیان تمیز ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

یہ رپورٹ 24 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں