اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں توسیع کا معاملہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے اس اعلان کے بعد تعطل کا شکار دکھائی دیتا ہے جس میں انھوں نے آج ہونے والے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے، اجلاس کی صدارت قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کریں گے جس کا مقصد اس معاملے پر اتفاق رائے قائم کرنا ہے۔

مذکورہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ پی پی پی کے پارلیمانی رہنما سید نوید قمر اور رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے اسپیکر کی جانب سے بنائی گئی ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا، اس اجلاس کی صدارت وزیر قانون زاہد حامد کررہے تھے، جس میں گذشتہ اجلاس کے دوران فوجی عدالتوں کے قیام میں 3 سال کی توسیع کے لیے آئین میں ترمیم کی تجویز کا منظور کردہ ڈرافٹ پیش کیا گیا تھا۔

ذیلی کمیٹی میں پی پی پی کی نمائندگی کرنے والی شازیہ مری کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کے ترمیمی بل پر 'ان کے تحفظات اور اعتراضات' پیش کرنے کے بعد اجلاس چھوڑ کر آگئیں ہیں۔

پی پی پی کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے بھی نئے ڈرافٹ پر اعتراض کیا گیا اور حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے انھیں اعتماد میں لیے بغیر اس میں تبدیلی کی۔

ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کرنے والی شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے تقسیم کیا جانے والا ڈرافٹ 21ویں آئینی ترمیم سے مختلف ہے، جس کے تحت فوجی عدالتوں کے 2 سالہ قیام کیلئے 2015 میں قومی اتفاق رائے قائم ہوا تھا۔

پی پی پی اور پی ٹی آئی نے حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 175 تھری میں ترمیم کرنے کے فیصلے پر اعتراض کیا، جس کے ذریعے فوجی عدالتوں کو ایسے تمام قیدیوں کے ٹرائل کا حق دیا گیا تھا 'جو کسی بھی دہشت گرد گروپ یا تنظیم سے ہوں گے اور مذہب یا فرقے کے نام کا استعمال کریں گے'۔

نئے ڈرافٹ میں حکومت نے الفاظ 'مذہب اور فرقے کے نام کا استعمال' کرنے کے الفاظ نکال دیے ہیں جس نے سیاسی جماعتوں میں خوف پیدا کردیا ہے کہ یہ قانون ان کے خلاف 'سیاسی انتقام' کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

دونوں جماعتوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے بظاہر اپنی اتحادی جماعت جمیعت علماء اسلام (ف) کے ایماء پر ڈرافٹ میں حقائق کو تبدیل کیا ہے۔

ان کے خدشات کی اس وقت تصدیق ہوگئی جب ذیلی کمیٹی میں جے یو آئی (ف) کی نمائندگی کرنے والی نعیمہ کشور نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ان کی جماعت ڈرافٹ کی موجودہ صورت میں حمایت کیلئے تیار ہے۔

انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر ڈرافٹ کو اس کی سابقہ حالت میں ترمیم کے لیے پیش کیا گیا تو جے یو آئی (ف) اس کی حمایت نہیں کرے گی۔

تاہم نعیمہ کشور نے حکومت کو تجویز پیش کی کہ فوجی عدالتوں میں 3 سال کی توسیع کے بجائے صرف ایک یا ڈیڑھ سال کی توسیع کی جانی چاہیے'۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے نوید قمر کا کہنا تھا کہ 'جمعرات کے اجلاس میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں جیسا کہ ہم حکومت کی جانب سے متعدد مرتبہ ایک ہی کہانی سن چکے ہیں'۔

پی پی پی کے رہنما نے یہ رائے پیش کی کہ حکومت اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ حکومت نے اپنی ایک اتحادی جماعت کو خوش کرنے کیلئے ڈرافٹ میں ترمیم کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی ایسے کسی قانون کا حصہ نہیں بننے گی جو سیاسیت دانوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا، انھوں نے اس بات کا عندیا دیا کہ جب تک حکومت اس مسئلے پر قومی اتفاق رائے قائم نہیں کرلیتی پی پی پی اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی۔

انھوں نے مزید اعلان کیا کہ فوجی عدالتوں کے معاملے پر پی پی پی بہت جلد کثیر جماعتی کانفرنس کا انعقاد کرنے جارہی ہے۔

نوید قمر کا کہنا تھا کہ دو سال قبل ان کی پارٹی نے دباؤ کے باعث 21 ویں آئینی ترمیم کی حمایت کی تھی۔

انھوں نے مزید کہا کہ پی پی پی فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کیسے کرسکتی ہے جبکہ ایسے اقدامات کے حوالے سے ماضی کا نتیجہ صفر رہا ہے۔

جب اس حوالے سے پی پی پی کی شازیہ مری سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے کمیٹی کو بتایا تھا کہ مذکورہ قانون اپنی ابتدائی حالت میں ہے یا 'نابالغ' ہے اور بنیادی اصولوں پر رضامندی سے قبل اس پر عمل درآمد کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

انھوں نے حکومت کی جانب سے پچھلے منظور شدہ ڈرافٹ میں تبدیلی کو 'یک طرفہ' اقدام قرار دیتے ہوئے اجلاس میں احتجاج ریکارڈ کرایا۔

میڈیا کے نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ دو سیاسی جماعتوں نے ڈرافٹ پر اپنے تحفطات کا اظہار کیا ہے جبکہ ایک پارٹی نے اس کی حمایت کی ہے، ان کا کہنا تھا کہ مشاورت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

خیال رہے کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے کے بعد جنوری 2015 میں شہریوں کو دہشت گردی کے قانون کے تحت ٹرائل کرنے کیلئے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تھا۔

اس وقت حکومت نے 'قومی اتفاق رائے' سے 2 سال کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے 21ویں آئینی ترمیم منظور کرائی تھی تاہم رواں سال 7 جنوری کو فوجی عدالتوں کے دو سال مکمل ہونے کے بعد یہ عملی طور پر غیر موثر ہوگئیں ہیں۔

عالمی کمیشن کے تحفظات

جینوا کے تحت بین الاقوامی کمیشن آف جیورسٹس (آئی سی جے) نے ایک جاری بیان میں کہا ہے کہ حکومت پاکستان دہشت گردی کے مقدمات میں شہریوں کے ٹرائل کیلئے فوجی عدالتوں کا دوبارہ قیام عمل میں نہ لائے۔

آئی سی جے ایشیا کے ڈائریکٹر سام ظرافی کا کہنا تھا کہ 'شہریوں کے ٹرائل کیلئے فوجی عدالتوں کا استعمال بین الاقومی معیار سے ہم آہنگ نہیں'۔

انھوں نے کہا کہ 'اس حوالے سے ماضی میں کیا جانے والا تجربہ یہ واضح کرتا ہے کہ فوجی عدالتوں کی جانب سے شہریوں کا ٹرائل نہ صرف انصاف کی خلاف ورزی اور ظالمانہ اقدام ہے بلکہ صاف اور شفاف ٹرائل کئ خلاف ورزی بھی ہے جبکہ یہ پاکستان میں حقیقی دہشت گردی کے خطرات کو کم کرنے میں غیر مؤثر ثابت ہوگا'۔

آئی سی جے کاکہنا تھا کہ نئے تجویز کیے گئے قانون کے ذریعے ہر جرم کو دہشت گردی کے زمرے میں لاکر فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیا جائے گا، جو 2015 میں کی گئی آئینی ترمیم کے مقابلے میں ایک وسیع اختیار ہوگا، جس کا مقصد مذہب اور فرقے کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کا ٹرائل کرنا اور اس میں نامزد ملزمان کالعدم تنظیموں کے اراکین تھے۔

عالمی ادارے کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ 'فوجی عدالتوں کا دوبارہ قیام اصل مسئلے سے توجہ ہٹا دے گا کہ حکومت گذشتہ دو سال کے دوران موجودہ عدالتی نظام کو مضبوط کرنے میں ناکام رہی ہے'۔

آئی سی جے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کو ملک کے عوام کے حقوق کے دفاع کیلئے خصوصی طور پر ڈٹ جانا چاہیے، اس کے بجائے کہ ایک انتظامیہ کو دوبارہ کام کی اجازت دے دی جائے یا اس میں توسیع کردی جائے، جو ایک بدنام اور توہین آمیز عمل ہے۔

یاد رہے کہ آئی سی جے کا قیام 1952 میں عمل میں لایا گیا تھا جس میں دنیا کے تمام خطوں سے 60 معروف ججز اور وکلاء شامل ہیں، ان کا مقصد قومی اور بین الاقوامی انصاف کے نظام کو مضبوط اور ترقی دینے کیلئے منفرد قانونی مہارت پیش کرنا ہے تاکہ انسانی حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔

یہ رپورٹ 23 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں