پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے جمعرات کے روز وہی فقرہ دہرایا جسے ہم لوگ بار بار سن چکے ہیں: ملک میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات کے بعد پختونوں کو 'ناجائز اور ظالمانہ' طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عمران خان کا اشارہ اس ماہ لاہور اور سیہون میں ہونے والے دھماکوں کی جانب تھا۔

عمران خان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب دہشتگردی کی آکاس بیل کو جڑ سے اکھاڑنے کا مطالبہ زور پکڑ چکا ہے اور رینجرز پنجاب میں انسدادِ دہشتگردی کی کارروائیوں کا آغاز کرنے لگے ہیں۔ مگر دہشتگردی کے خلاف ان مطالبوں میں ایک پورے نسلی گروہ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اسے قصوروار ٹھہرایا جا رہا ہے۔

تناؤ سے بھرپور ان وقتوں میں ہمیں ضرورت ہے کہ لیبل لگانے سے اجتناب کریں، چاہے یہ لیبلنگ کتنی آسان کیوں نہ ہو۔ ہمارے ملک میں نسلی تعصب کی موجودگی کی ایک مثال سوشل میڈیا پر پختونوں سے 'خبردار' رہنے کا مشورہ دیتے پیغامات کا گردش کرنا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ یہ تعصب کئی دہائیوں میں پروان چڑھا ہے اور آج اس صورت میں نظر آ رہا ہے۔

عوامی رجحان یہ ہے کہ سارا ملبہ 'غیر ملکیوں' پر ڈال دیا جائے جو کہ ہماری تہذیب کا خاتمہ کرنے کے درپے ہیں۔ عوامی سوچ کے مطابق یہی وہ شیطان صفت لوگ ہیں جو ہماری پرامن اور تحمل مزاج قوم پر تباہی لانا چاہتے ہیں۔ ہم یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ کئی سالوں سے جاری پرتشدد کارروائیوں میں 'ہمارا' بھی کسی نہ کسی طرح ہاتھ رہا ہے۔

اس فارمولے میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ دنیا بھر میں بار بار استعمال کیا جاتا ہے، بھلے ہی ان لوگوں کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے جن کے خلاف یہ نافذ کیا جاتا ہے۔ نسلی بنیادوں پر قصوروار ٹھہرانا اب ماضی کا قصہ بن جانا چاہیے۔ اس تعصب کی ان ممالک میں کوئی جگہ نہیں جنہوں نے بذاتِ خود ان تعصبات کی وجہ سے ہونے والے شدید قتل و غارت اور نفرت انگیزی کا مشاہدہ کر رکھا ہے۔

اس کے علاوہ یہ اشتعال انگیز لیبلنگ ان تمام افراد کو تحفظ فراہم کرتی ہے جو کہ اپنی نسل کی وجہ سے شک کے دائرے میں نہیں آتے۔ اگر انسانی بنیادوں پر نہیں، تو کم از کم دہشتگردوں کو جامع اور ہم آہنگ انداز میں نشانہ بنانے کے لیے ہی اس تعصب سے جان چھڑانی چاہیے۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 25 فروری 2017 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں