پشاور: پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایک اتحادی جماعت کی شدید مزاحمت کے بعد وفاقی کابینہ کے آج ہونے والے اجلاس میں فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے حوالے سے اہم فیصلہ متوقع ہے تاہم اصلاحات کمیٹی کی تجاویز کے مطابق فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم نہیں کیے جانے کا امکان نہیں۔

سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ کابینہ آج کے اجلاس میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے کو قومی دھارے میں لانے کے حوالے سے بات چیت کرے گی اور یہ تجویز مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی زیر صدارت 6 رکنی کمیٹی نے پیش کی تھیں۔

خیال رہے کہ حکمران جماعت کی اتحادی جمیعت علماء اسلام (ف) نے فاٹا کے خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی مخالف کی ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ کمیٹی رپورٹ کے متنازع حصے میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کردیا جائے، تاہم اس تجویز کو نکالے جانے کا امکان ہے اور اس کی جگہ الفاظ 'قومی دھارے میں لایا جائے' ممکنہ طور پر استعمال ہوسکتے ہیں۔

مشیر خارجہ سرتاج عزیز کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف اور کابینہ کے اراکین کو فاٹا اصلاحات پر بریفنگ دیں گے، گذشتہ سال 8 اگست کو منظر عام پر آنے والی دستاویز تاحال کابینہ سے منظوری کی منتظر ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ 'کابینہ قبائل کو صوبے میں ضم کرنے اور آئندہ انتخابات میں خیبرپختونخوا اسمبلی میں قبائلیوں کیلئے نشستیں مختص کرنے کے معاملے کو ممکنہ طور پر رد سکتی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ 'قومی دھارے میں لانا' ایک مبہم اصطلاح ہے جو اصلاحات کے مکمل منصوبے کی روح کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

خیال رہے کہ کمیٹی کی رپورٹ کو 7 فروری کے اجلاس سے کچھ ہی دیگر قبل ایجنڈے سے نکال دیا گیا تھا، اس فیصلے کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا اور اس فیصلے نے فاٹا کے صوبے میں ضم کرنے کے منصوبے کے حامیوں میں بدامنی پیدا کردی۔

ملک کی اہم سیاسی جماعتوں اور فاٹا کے پارلیمانی اراکین نے فاٹا اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ پر عمل درآمد میں تاخیر کے خلاف 12 مارچ کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ریلی منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

جبکہ جماعت اسلامی 26 فروری کو پشاور میں گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دے چکی ہے، مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ گورنر اقبال ظفر جھگڑا انھیں یقین دہانی کرائیں کہ کابینہ 12 مارچ سے قبل کمیٹی کی رپورٹ منظور کرلے گی۔

جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر جماعتوں، جن میں عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی شامل ہیں، نے فاٹا کو صوبے میں فوری ضم کرنے، فرنٹئیر کرائم ریگولیشن (ایف سی آر) کے خاتمے اور کے پی اسمبلی میں قبائلیوں کی نمائندگی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

دوسرے جانب مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعتوں جے یو آئی (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے کمیٹی کی رپورٹ کے اہم حصے کی مخالفت کی تھی جس میں فاٹا کو کے پی میں ضم کرنا بھی شامل تھا۔

جے یو آئی (ف) کے مولانا فضل الرحمٰن نے حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ فاٹا اصلاحات کے حوالے سے ان کے وزیر اعظم کے درمیان اتفاق رائے قائم ہوگیا ہے۔

ان کے مطابق ضم کرنے کے الفاظ کو قومی دھارے میں لانے کے الفاظ سے تبدیل کردیا جائے گا اور قومی دھارے میں لانے کا عمل 5 سال بعد شروع ہوگا۔

پشاور میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 'اس دوران حکومت قبائلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر بحالی کا کام کرے گی'۔

ان کا موقف تھا کہ سرتاج عزیز کی قیادت میں کمیٹی نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے، جس میں انھیں فاٹا کو سیاسی دھارے میں لانے کیلئے تجاویز پیش کرنے کو کہا گیا تھا ناکہ اس کے ضم کرنے کے حوالے سے تجاویز مانگی گئیں تھی۔

انھوں نے خیبرپختونخوا اسمبلی میں قبائلیوں کی نمائندگی کی مخالفت بھی کی۔

یہ رپورٹ 2 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں