اسلام آباد: سپریم کورٹ نے طیبہ تشدد کیس کی ٹرائل کورٹ میں جاری سماعت پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کو حکم دیا کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلیے 15روز میں کیس کا جائزہ لے۔

سپریم کورٹ میں طیبہ تشدد کیس پر جائزہ لیتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ ملزمان کے خلاف چالان میں غلامی اور انسانی فروخت کی دفعات بھی شامل کرے۔

سماعت کے دوران عاصمہ جہانگیر نے عدالت کو بتایا کہ ابھی تک ماتحت عدلیہ میں ٹرائل شروع نہیں ہوا۔

ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس کیس کو ٹرانسفر کرکے اسپیشل پراسیکیوٹر تعینات کیا جائے۔

عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ میں کیس سننے والا جوڈیشل افسر بھی ملزم کے برابر کے عہدے کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ٹرائل کورٹ کا سربراہ ملزم کا واقف کار ہو۔

عاصمہ جہانگیر نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کے خلاف چالان میں غلامی اور انسانی فروخت کی دفعات شامل نہیں کی گئیں۔

جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایسا کون سا فورم ہے جو یہ دفعات چالان میں شامل کرسکے۔

عاصمہ جہانگیر نے عدالت کو بتایا کہ ٹرائل کورٹ میں صرف متاثرہ فریق یا ریاست یہ دفعات شامل کروا سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے یہ بھی دریافت کیا کہ کیا ہائیکورٹ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے بھی یہ دفعات چالان میں شامل کروا سکتی ہے، تو عاصمہ جہانگیر نے عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹ اپنے اختیارات کے ساتھ ایسا کرسکتی ہے۔

عاصمہ جہانگیر کا مزید کہنا تھا کہ اس کیس میں ریاست کو اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیئے تاہم یہاں ریاستی اداروں کی جانب سے مجھے اس کیس سے پیچھے ہٹنے کا کہا جارہا ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ریاست اپنی ذمہ داری کیوں نہیں ادا کررہی؟ اگر بچی کا باپ تحفظ کے لیے نہیں آتا تو عدالت ہی والدین کی ذمہ داریاں ادا کرتی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ طیبہ کی حوالگی سے متعلق فیصلہ اگلی سماعت پرکریں گے لہذا بہتر ہے کہ فی الحال بچی کو ایس او ایس ویلج بھجوادیا جائے۔

عاصمہ جہانگیر نے طیبہ کے والد کے بیان پر عدالت کی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ طیبہ کے والد کا ٹرائل کورٹ میں دیا گیا بیان سپریم کورٹ میں دیئے گئے بیان سے مختلف تھا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی ملزم کو شواہد کے بغیر سزا نہیں دی جا سکتی تاہم یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے لیکن والدین اور شکایت کنندہ اس پر راضی نہیں ہوتے۔

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ معاملے کا 15روز میں خود جائزہ لینے کے احکامات جاری کرتے ہوئے کیس منتقلی سے متعلق واضع حکم جاری کرنے کی بھی ہدایت دی۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ طیبہ تشدد کیس میں جن قانونی نکات کو اٹھایا گیا ہے انھیں منطقی انجام تک پہنچائیں گے اور کیس کو درمیان میں نامکمل نہیں چھوڑا جائے گا۔

جس کے بعد کیس کی سماعت کو 21 مارچ تک ملتوی کردیا گیا۔

یاد رہے کہ دو ہفتے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ تشدد کیس میں پولیس کو دو ہفتوں میں مکمل چالان پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

جبکہ دوران سماعت ملزمان کی جانب سے حاضری سے استثنا کی درخواست دائر کی گئی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے ملزمان کو 25 مارچ کو حاضری یقینی بنانے کاحکم دیا تھا۔

طیبہ تشدد کیس — کب کیا ہوا؟

کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد کا معاملہ دسمبر 2016 کے آخر میں اُس وقت منظرعام پر آیا تھا، جب تشدد زدہ بچی کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔

بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی جبکہ اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے، تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی، جسے بعدازاں پاکستان سوئیٹ ہوم کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔

دوسری جانب تشدد کے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے سیشن جج اور ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ چند پڑوسیوں نے مبینہ طور پر ان کے خلاف 'سازش' کی، ملزم جوڑے کے مطابق انہوں نے والدین کی غربت کو دیکھتے ہوئے بچی کو انسانی ہمدردی کی بناء پر اپنے گھر میں رکھا تھا۔

بعدازاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کم سن ملازمہ پر ہونے والے تشدد پر ازخود نوٹس کیس کو مزید ٹرائل کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج دیا تھا۔

10 فروری کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہونے والی گذشتہ سماعت کے دوران طیبہ کے والد نے ملزمان کو ایک مرتبہ پھر معاف کرنے کا بیان حلفی جمع کرادیا تھا، جس پر عدالت نے جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔

20 فروری کو کیس کے مرکزی ملزم ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم کی اہلیہ ماہین ظفر نے سارے معاملے کو سازش قرار دیتے ہوئے وزارت داخلہ کو ایک درخواست جمع کرائی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ جڑواں شہروں سے تعلق رکھنے والا ایک بااثر قبضہ مافیا کا سرغنہ اس 'سازش' میں ملوث ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں