اسلام آباد: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر ہونے والے تشدد پر ازخود نوٹس کیس کو مزید ٹرائل کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج دیا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ملازمہ پر تشدد میں ملوث ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج خرم علی خان سے اس بات کا جواب طلب کرلیا کہ انہوں نے اتنی کم عمر بچی کو اپنے گھر میں ملازمہ کیوں رکھا۔

ساتھ ہی عدالت نے مقامی عدالت کے اس جج سے بھی جواب طلب کیا، جنہوں نے کیس کے مرکزی ملزم اور جج خرم علی خان کی اہلیہ ماہین ظفر کی ضمانت لی جبکہ بچی کو بغیر کسی تفتیش کے اس کے والدین کے حوالے کردیا تھا۔

جبکہ کم سن ملازمہ کو دوبارہ سوئیٹ ہوم بھجوادیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس میں ناقابل ضمانت دفعات شامل

کیس کو اسلام آباد ہائیکورٹ بھیجتے ہوئے سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اب مقدمے کی سماعت کس عدالت میں چلے گی، اس کا فیصلہ ہائی کورٹ کرے گی جبکہ عدالت کے تعین کے لیے ایڈووکیٹ عاصمہ جہانگیر کو بھی ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایات جاری کردی گئیں۔

واضح رہے کہ عاصمہ جہانگیر اس کیس میں غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی نمائندہ ہیں۔

طیبہ تشدد کیس—کب کیا ہوا؟

کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد کا معاملہ دسمبر 2016 کے آخر میں اُس وقت منظرعام پر آیا تھا، جب تشدد زدہ بچی کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

مزید پڑھیں: طیبہ پر تشدد کرکے جرم کا ارتکاب کیا گیا، چیف جسٹس

بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔

بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی جبکہ اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے، تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی، جسے بعدازاں پاکستان سوئیٹ ہوم کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں