اسلام آباد کی مقامی عدالت میں طیبہ تشدد کیس کی سماعت کے دوران کم سن ملازمہ کے والد اعظم نے اپنے بیان حلفی میں ایک مرتبہ پھر ملزم جج اور ان کی اہلیہ کو معاف کردیا۔

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ ایند سیشن عدالت میں طیبہ تشدد کیس کی سماعت ہوئی، جس کے دوران کیس میں نامزد ملزم ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت ایڈیشنل سیشن جج راجہ آصف نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ طیبہ کے والدین کون ہیں؟ جس پر اعظم خان نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ 'میں بچی کاوالد ہوں'۔

طیبہ کے والد اعظم نے اپنے بیان میں کہا کہ 'میں نے ایڈیشنل سیشن جج اور ان کی اہلیہ کو معاف کردیا'۔

مزید پڑھیں: طیبہ پر تشدد کرکے جرم کا ارتکاب کیا گیا، چیف جسٹس

اعظم نے اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ وہ سپریم کورٹ میں دباؤ میں آگئے تھے اور یہ مقدمہ بے بنیاد ہے، لہذا وہ ایڈیشنل سیشن جج کے خلاف مقدمے سے دستبردار ہورہے ہیں۔

ایڈیشنل سیشن جج راجہ آصف نے بچی کے والد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ پہلے بیان دے کر پھر مکر گئے تھے، ڈرنے کی ضرورت نہیں، عدالت آپ کا تحفظ کرے گی'۔

جس پر اعظم نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ 'میں ہوش و ہواس میں راجہ خرم اور ان کی اہلیہ کو معاف کرتا ہوں'۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس پڑوسیوں کی 'سازش' ہے، اہلیہ جج

جس پر عدالت نے طیبہ کے والدین کو تحریری طور پر بیان جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ملزم جج کی ضمانت کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا، مدعی اپنی مرضی سے بیان حلفی عدالت میں جمع کروائیں اور اسی وقت ضمانت پر فیصلہ دیا جائے گا۔

بعدازاں طیبہ کے والد اعظم کی جانب سے عدالت میں بیان حلفی جمع کرادیا گیا، جس میں ان کا موقف تھا کہ وہ ملزم جج خرم اور ان کی اہلیہ کے خلاف مقدمہ واپس لینا چاہتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر جج راجہ خرم اور ان کی اہلیہ کو بری یا ضمانت دی جاتی ہے تو انھیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔

بعدازاں عدالت نے 30،30 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض راجا خرم اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کی ضمانت منظور کرلی۔

طیبہ تشدد کیس—کب کیا ہوا؟

کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد کا معاملہ گذشتہ برس دسمبر کے آخر میں اُس وقت منظرعام پر آیا تھا جب تشدد زدہ بچی کی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج راجہ خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں حراست میں لے لیا تھا۔

بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: طیبہ کے 'والدین' کی شناخت کیلئے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم

بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی اور اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی، جسے بعدازاں پاکستان سوئیٹ ہوم کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔

گذشتہ ماہ 31 جنوری کو سپریم کورٹ نے طیبہ پر تشدد کے ازخود نوٹس کیس کو مزید ٹرائل کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ ارسال کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب ہائیکورٹ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ مقدمے کی سماعت کس عدالت میں چلے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

فیضان رحیم Feb 10, 2017 12:46pm
طیبہ کے ماں بات بھلے ہی جج اور ان کی اہلیہ کو معاف کردے لیکن ریاست کو ایک کم سن بچی پر تشدد کے جرم میں مدعی بننا اور دونوں کو سزائیں دلوانی چاہیے۔ نیز بچوں پر تشدد کے جرائم میں ماں باپ کو معاف کرنے کا حق نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ ان بچوں کے انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔