سینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے واضح کیا ہے کہ ان کے پاس مستقبل میں پاکستان مسلم لیگ (ن) میں دوبارہ سے شمولیت کا آپشن موجود ہے، تاہم ابھی تک انھوں نے اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'اِن فوکس' کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ 'اگرچہ ن لیگ کے ساتھ میرے اختلافات موجود ہیں، لیکن میں کل بھی مسلم لیگی تھا اور آج بھی ہوں اور میں دفن بھی لیگی پرچم میں ہوں گا، کیونکہ یہ جماعت میرے سب سے قریب ترین ہے'۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں سیاست اُسی وقت ہوسکتی ہے جب آپ کوئی نئی جماعت بنا کر سامنے آئیں، لیکن میرے پاس اتنے وسائل نہیں کہ میں خود اپنی کوئی جماعت بنا سکوں اور نہ ہی کبھی اکیلے سیاست کرنے کا سوچا ہے۔

ان کا کہنا تھا 'میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں بھی اس لیے آیا تھا کہ اسے مستحکم بنا سکوں، مگر وہ لوگ پارلیمانی سیاست کرنا نہیں جانتے'۔

مزید پڑھیں: جاویدہاشمی تحریک انصاف سے مستعفی،الیکشن میں مسلم لیگی حمایت حاصل

مخدوم جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف میں شمولیت سے قبل ان کے فوج کے ساتھ رابطوں کا معلوم نہیں تھا، لیکن جیسے ہی پارٹی میں آیا تو غلطی کا احساس ہوا، لہذا انہیں سمجھانے کی کوشش کی، مگر ناکامی پر پارٹی کو چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

انھوں نے کہا کہ ہمیں پارلیمانی سیاست کو مستحکم کرنا ہے، کیونکہ یہی وہ نظام ہے جس سے اس ملک کے غریب عوام کی حالت میں بہتری ہوسکتی ہے اور اس کے سوا اور کوئی ایسا نظام نہیں جس سے عام آدمی کے مسائل کو حل کیا جاسکے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر یہ پارلیمانی نظام نہ ہوتا تو شاید وہ ایک علاقے کے کونسلر تک نہیں بن سکتے تھے، انھیں آج تک اس نظام کی بدولت ہی عزت ملی۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے عام انتخابات 2013 میں مبینہ دھاندلی کے خلاف پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کے خلاف دارالحکومت اسلام آباد میں 126 روز تک دھرنا دیا تھا، جسے 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد ختم کردیا گیا تھا، اس دھرنے کے وقت جاوید ہاشمی پی ٹی آئی میں شامل تھے۔

دوران دھرنا یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ جاوید ہاشمی فوج کے بطور ثالث کردار ادا کرنے کے معاملے پر پارٹی قیادت سے ناراض ہو کر اسلام آباد سے ملتان روانہ ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: 'فوج کے غیر مطمئن عناصر عمران خان کے ذریعے تباہی لانا چاہتے تھے'

واضح رہے کہ حال ہی میں جاوید ہاشمی نے 2014 کے دھرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ 'فوج کے غیر مطمئن عناصر ہر حال میں جنرل راحیل شریف کو بھی ناکام کرنا چاہتے تھے اور عمران خان کے ذریعے پارلیمانی نظام میں بھی تباہی لانا چاہتے تھے اور ایسا ملک میں ایک بار نہیں ہوا'۔

'فوجی مداخلت سول قیادت کی شفافیت سے مشروط'

مستقبل میں فوج کی سیاسی معاملات میں ممکنہ مداخلت سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فوج کی مداخلت کا راستہ صرف سول قیادت کی شفافیت سے روکا جاسکتا ہے۔

جاوید ہاشمی نے واضح کیا کہ اگر کرپشن کی شرح اسی طرح بڑھتی رہے گی اور ادارے اپنا کام نہیں کریں گے تو ممکن ہے فوج کو مداخلت کرنا پڑے۔

انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان سمیت سول اور عسکری سطح پر بھی ہر ایک کا احتساب ہونا چاہیئے تاکہ نظام کو مضبوط بنایا جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں