واشنگٹن: امریکی ٹھنک ٹینک سٹمسن سینٹر کے شریک بانی مائیکل کریپن نے قرار دیا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کی کفیل ریاست کہنا ایک نہایت ہی غیر دانشمندانہ عمل ہوگا۔

واشنگٹن کے ایک اور تھنک ٹینک ہیریٹیج فاؤنڈیشن سے منسلک ٹینک لیزا کرٹس بھی یہ نہیں چاہتیں کہ پاکستان کو دہشت گردوں کا کفیل ملک قرار دیا جائے، تاہم انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ پر زور دیا کہ اس آپشن کو مستقبل کے لیے کھلا رکھا جائے، لیکن اس کے ساتھ انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ پاکستان کی فوجی امداد پر شرائط لاگو کی جائیں۔

سابق امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان اور پاکستان ڈینیل فلڈمین کہتے ہیں کہ ماضی میں بھی پاکستان کی امداد روکنے کی کوشش کی گئی، لیکن اس سے ریاست کے رویئے میں خواہش کے مطابق تبدیلی نہیں لائی جا سکی۔

مزید پڑھیں: امریکا پاکستان کو مزید F-16 بیچنے پرتیار

اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے مائیکل کریپن مزید کہتے ہیں کہ یہ پیشگی خطرہ بشمول اصلاحی اقدامات اس عمل درآمد کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔

اپنی ایک حالیہ تحریر میں ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، لیکن اس کے اثرات جوہری مسئلے سے کم اہم ہیں۔

انہوں نے لکھا ہے کہ راولپنڈی بھی اس بات کا اندازہ کرچکا ہے، جو اس کی وضاحت میں مدد گار ثابت ہوتا ہے کہ وعدے کے مطابق لشکر طیبہ اور جیش محمد کی قیادت کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی بلکہ دکھاوے کے اقدامات کیوں ہوتے ہیں۔

واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پروفیسر جان گِل نے ’سب دوبارہ سے شروع کرنے‘ کے حوالے سے انتباہ کرتے ہوئے یہ تجویز بھی دی کہ پاکستان کے لیے امریکا کی موجودہ پالیسی میں تبدیلی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید کام کرنے کے لیے حوصلہ افزاء ہو سکتی ہے۔

حالیہ دنوں میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ خبریں سامنے آئی ہیں کہ رواں برس 20 جنوری کو اقتدار میں آنے والی ٹرمپ انتظامیہ پاکستان اور افغانستان کے لیے نئی پالیسی مرتب کرنے جا رہی ہے، جس کے بعد سے اس معاملے پر مختلف تھنک ٹینک بحث کر رہے ہیں۔

تاہم اب تک ٹرمپ انتظامیہ اس معاملہ پر خاموش ہے لیکن قانون دان اور ماہرین سے مشاورت کا عمل شروع کیا جاچکا ہے، رواں مہینے ہی پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کو بھی محکمہ خارجہ میں مشاروت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں روسی مداخلت: امریکا پاکستان کو کیسے دیکھتا تھا؟

حسین حقانی کے ساتھ گزشتہ ماہ کھے گئے ایک تحقیقی مقالے میں معاون مصنفہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن سے منسلک ٹینک لیزا کرٹس بھی نئی پالیسی میں اہم اثر و رسوخ رکھتی ہیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کرٹس کو بطورنئی اسسٹنٹ سیکریٹری اسٹیٹ برائے جنوبی ایشیا رکھ سکتی ہے۔

ایک مشترکہ رپورٹ کے مطابق لیزا کرٹس اور حسین حقانی نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ پاکستانی قیادت کے لیے اس قدر مشکل بنا دیں کہ علاقائی مفادات کے حصول کے لیے کسی دہشت گرد پراکسی کی حمایت کریں اوراس بات کا ابہام نہیں ہونا چاہیئے کہ پاکستان کا دہشت گرد پروکسیز کی مدد کرنا امریکی مفادات کے لیے خطرہ ہے۔

دونوں مصنف اور ماہرین نے تجویز دی ہے کہ امریکا کو پاکستان پر افغان پالیسی کو تبدیل کرنے لیے زور دینا چاہیئے، یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کی مدد جاری رکھے ہوئے ہے جو کہ امریکا کو جنگ سے متاثرہ افغانستان میں اپنی پالیسی کا مکمل نفاذ اور قیام امن میں رکارٹ ہے، اس بات پر بھی بحث کی گئی کہ افغانستان میں مارے جانے والے سیکڑوں امریکی فوجیوں کی وجہ بھی پاکستانی کی پالیسی ہے۔

مائیکل کریپن نے اس دلیل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے نزدیک افغانستان کے مستقبل سے زیادہ پاکستان کا مستقبل اہمیت کا حامل ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئی بھی امریکی پالیسی جو سابق الذکر قربانی کی خواہاں ہے, جیسا پاکستان پر تنقید کرنے والے مطالبہ بھی کرتے ہیں ایک حماقت ہے۔

امریکی ٹھنک ٹینک سٹمسن سینٹر کے شریک بانی نے یہ بھی کہا کہ واشنگٹن کے سنہرے خوابوں میں سے ایک خواب یہ بھی ہے کہ پاکستان کے افغانستان میں مفادات امریکی مفادات کے ماتحت ہو جائیں۔


یہ خبر 16 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں