واشنگٹن: امریکا میں نئے تعینات ہونے والے پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری کا کہنا ہے کہ امریکا میں پاکستان کو دہشت گردی کی کفیل ریاست قرار دینے کی کوئی خواہش نہیں پائی جاتی، لوگ دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات کو دیکھنا چاہتے ہیں۔

مگر سابق صدر آصف علی زرداری نے پاک-امریکا تعلقات میں اعتماد کی کمی کودیکھتے ہوئے پاکستان پر زور دیا ہے کہ اسلام آباد کو اپنی مضبوطی کے لیے اتحادیوں کے ساتھ فوجی اور کمرشل تعاون بڑھانے کے لیے مزید سخت اقدامات کرنے چاہئیں۔

پاکستانی صحافیوں سے گفتگو کے دوران اعزاز چوہدری نے افغانستان میں امن مذاکرات کے حوالے سے کاڈ لٹرل کو آرڈینشین گروپ (چار ممالک پر مبنی گروپ) جیسے دیگر ملٹی لٹرل فورمز کی دوبارہ بحالی کی ضرورت پر زور دیا۔

دوسری جانب فوربز میگزین کے لیے لکھے گئے ایک کالم میں سابق صدر آصف علی زرداری نے لکھا ہےکہ امریکا نے نائن الیون حملوں کے بعد پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی، جس سے ملک میں کافی استحکام بھی آیا، مگرامریکا کی جانب سے خیرسگالی کے تحت ملنے والے یہ پیسے ہمارے لیے لامحدود نہیں ہیں۔

پاکستانی سفیر نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کے مخصوص لوگ پاکستان کو دہشت گردی کی کفیل ریاست قرار دئیے جانے کامعاملہ اٹھار رہے ہیں ، مگر امریکیوں کی بہت بڑی تعداد پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے اتحادی کےطور پر دیکھتی ہے۔

آصف علی زرداری بھی اسی طرح قدرے مشترکہ سوچتے ہوئے اپنے مضمون میں امریکا پر اس بات کا زور دیتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ اتحاد جاری رکھا جائے، کیوں کہ ہمارے لوگوں پر بھی وہی لوگ حملہ کر رہے ہیں جو امریکیوں اور باقی معصوموں کے اوپر حملے کر رہے ہیں۔

اعزاز چوہدری اور آصف علی زرداری نے پاکستان اور امریکا کے دوران کثیرالجہتی تعلقات کی تاریخی نوعیت پر زور دیا ہے اور دونوں نے امید ظاہر کی ہے کہ واشنگٹن کی نئی انتظامیہ اس اتحاد کو مضبوط کرے گی۔

پاکستانی سفیر نے گفتگو کے دوران پاکستان میں ہونے والی حالیہ بہتریوں سے متعلق کہا کہ اس وقت ملک اقتصادی پرواز پر ہے اور اس وقت قریبی تعلقات قائم کرنا دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) سے تقریبا دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کردی ہیں۔

انہوں نے امریکی قانون سازوں اور جنرلز کی جانب سے علاقے کے دورے کی تعریف بھی کی۔

اعزاز چوہدری نے بتایا کہ فوجی آپریشن کے بعد علاقے کے 90 فیصد بے گھر ہوجانے والے افراد کو واپس اپنے گھروں میں آنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

پاکستانی سفیر نے ضرب عضب کے دوران افغانستان فرار ہوجانے والے طالبان دہشت گردوں کے واپس پاکستان آکر اسکولز، ہسپتالوں اور درگاہوں پر حملے کرنے سے متعلق بھی بات کی۔

انہوں نے وضاحت کی کہ پاک-افغان سرحد کی عارضی بندش سرحد پار ہونے والے دہشت گرد حملوں کو روکنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے، یہ سرحد کی بندش نہیں، بلکہ سرحدی نظام کو بہتر بنانے کے لیے اٹھایا گیا ایک قدم ہے۔

انہوں نے اس موقع پرافغانستان کو سرحد پار ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے مشترکہ طور پر سرحدی نظام بہتر کرنے کی دعوت بھی دی۔

اعزاز چوہدری نے حال ہی میں لندن میں مشیر خارجہ برائے وزیر اعظم سرتاج عزیز اور افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر کے درمیان ہونے والی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ اس سے اسلام آباد اور کابل کے درمیان قربتیں بڑھیں گی۔

اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان امن اور خوشحالی کے سفر پر گامزن ہے، بہتر سیکیورٹی صورتحال اور بہتر اقتصادی اصلاحات کے باعث قومی معیشت کی شرح نمو 4.7فیصد تک بڑھ چکی ہے، جب کہ تمام اقتصادی اشارے مثبت رجحان ظاہر کر رہے ہیں۔


یہ خبر 19 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں