بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ سچے واقعات اور تحقیق مل کر حقیقت کے مکروہ چہرے کی تصویری وضاحت پیش کرتے ہیں۔ جمعے کے دن 'عورت ہونے کی مشکلات' پر کی جانے والی ایک نئی تحقیق کے نتائج پر غور کرنے کے لیے ایک دو روزہ سیمینار کا اختتام ہوا۔

تحقیق کے مطابق بھلے ہی خواتین کے خلاف تشدد اور خاندانی جبر کے مسائل سے نمٹنے کے لیے قوانین موجود ہیں، مگر پاکستان، نیپال اور بنگلہ دیش میں اس حوالے سے پالیسیوں میں سقم موجود ہیں اور شاذ و نادر ہی عملدرآمد کیا جاتا ہے۔

نتیجتاً یہ گہرائی تک سرایت کر چکا ایک ایسا مسئلہ ہے جسے بڑھاوا مردانہ حاکمیت، اور عزت، غیرت، کنٹرول اور مردانگی کے تصورات سے ملتا ہے۔

جس دن اس سیمینار کی بحث اخبارات میں شائع ہوئی، اسی دن کے اخبارات میں ایک اور خبر شائع ہوئی: نارتھ کراچی میں ایک شخص نے اپنی بیوی کا گلا گھونٹ کر قتل کر دیا؛ پولیس کے مطابق واقعہ ناشتہ وقت پر تیار نہ ہونے پر تلخ کلامی سے شروع ہوا، اور عورت کے قتل پر اختتام پذیر ہوا۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ سے معلوم ہوا کہ اس عورت کو باقاعدگی سے مارا پیٹا جاتا تھا، جبکہ جن حالات میں اس جوڑے کی شادی ہوئی، اس سے خواتین کے حقوق کی تلفی کے ایک اور پہلو کے بارے میں آگاہی ملتی ہے؛ لڑکی 18 سال کی تھی، شوہر 47 سال کا، اور شادی لڑکی کے والد کی مرضی کے مطابق ہوئی تھی۔

بدصورت سچائی یہ ہے کہ پاکستان خواتین کے خلاف تشدد، خصوصاً گھریلو تشدد (جو کہ شوہروں کے علاوہ بھائیوں، باپوں، اور سسرالیوں کی جانب سے بھی کیا جاتا ہے) کے خلاف پالیسی سطح پر اقدامات کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔

یہ تمام واقعات خفیہ رکھے جاتے ہیں اور انہیں خاندان کا نجی مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ قانون کا نفاذ کیا گیا ہے، مگر صرف پنجاب میں، اور وہاں بھی ہمیں اب تک اس کے نفاذ کے لیے کوئی قابلِ ذکر کوشش، مثلاً ہیلپ لائنز اور شیلٹرز کا قیام نظر نہیں آیا ہے۔

جہاں دوسرے صوبوں کو اس معاملے میں پنجاب کی پیروی کرنی چاہیے، وہاں ایک اور قابلِ غور حقیقت ہے جسے دہرایا جانا ضروری ہے: جس مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ ہے مردانہ حاکمیت، اور عورتوں کو مردوں کی 'ملکیت' تصور کرنا۔

پاکستانی خواتین کی مشکلات میں آسانی کے لیے سماجی رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 27 مارچ 2017 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں