مفلوج شخص نئی ٹیکنالوجی سے ہاتھ کو حرکت دینے میں کامیاب

30 مارچ 2017
بلو کوچیوار 8 سال بعد اپنے ہاتھ سے کھانا کھانے کے قابل ہوئے—۔— فوٹو بشکریہ کیس ویسٹرن ریورس یونیورسٹی
بلو کوچیوار 8 سال بعد اپنے ہاتھ سے کھانا کھانے کے قابل ہوئے—۔— فوٹو بشکریہ کیس ویسٹرن ریورس یونیورسٹی

جسمانی طور پر مفلوج افراد بھی اپنے اعضاء پر کنٹرول حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے لیے ایک نئی ٹیکنالوجی کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔

سائنسدانوں نے 8 سال سے مفلوج شخص کے خیالات کو اس کے ہاتھوں کے مسلز سے جوڑ دیا جس کی بدولت وہ برسوں بعد پہلی بار خود کھانے کے قابل ہوگیا۔

اوہائیو کے 56 سالہ رہائشی بل کوچیوار 2009 میں ایک حادثے کے نتیجے میں مفلوج ہوگئے تھے مگر اس نئی ٹیکنالوجی کی بدولت وہ کافی پینے اور کھانا کھانے کے قابل ہوگئے۔

اس کے لیے کیس ویسٹرن ریورس یونیورسٹی کے محققین نے ایک ڈیوائس تیار کی، جس کی مدد سے اس معذور شخص کی دماغی لہروں کو ایک کمپیوٹر میں بھیجا گیا، جہاں سے وہ برقی پلسز میں تبدیل ہوکر ہاتھوں میں نصب الیکٹروڈز میں منتقل ہوگئی، جس سے مفلوج ہاتھ میں حرکت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔

یہ پہلی دفعہ ہے کہ اس طرح کسی ٹیکنالوجی کی مدد سے کوئی مفلوج شخص ہاتھ کو حرکت دینے میں کامیاب ہوسکا جس کے لیے دماغ کو استعمال کیا گیا۔

بل کوچیوار کا کہنا تھا 'ایک ایسا فرد جو 8 سال سے حرکت کرنے سے قاصر ہو، اگر تھوڑی بہت بھی حرکت کرنے کے لیے قابل ہوجائے تو وہ ناقابل یقین ہوتا ہے، یہ خیال بہت اچھا لگتا ہے کہ میں دنیا کا پہلا شخص ہوں جو ایسا کرپارہا ہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا 'اب تک لوگ میرا کام کرتے تھے کیونکہ میں کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا، مگر اس ٹیکنالوجی نے مجھے کچھ کام کرنے کے قابل بنا دیا ہے'۔

ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے دو الیکٹروڈ ایریز مریض کے دماغ میں نصب کیے تھے جن کا حجم ایک اسپرین جتنا تھا، تاکہ دماغی سگنلز کو ریکارڈ کرسکیں جو ان کے ہاتھوں کو حرکت دینے کے کام آئے۔

اس کے لیے مریض کو ایک موبائل ہاتھ کی سپورٹ بھی دی گئی ہے، جو ان کے دماغ کے کنٹرول میں تھا۔

45 ہفتے کی تربیت کے بعد اب بل کوچیوار اپنے دائیں ہاتھ کے تمام جوڑوں کو صرف اپنی سوچ کی مدد سے حرکت دینے کے قابل ہوگئے ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ یہ ڈیوائس بہت جلد لیبارٹری سے باہر دستیاب ہوگی اور یہ مفلوج مریضوں کی آزادی کو بحال کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

(اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع ہوئے)

تبصرے (0) بند ہیں