گزشتہ ہفتے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ منصور علی خان کی جانب سے اپنی تنخواہ اور مراعات کی معلومات عوامی سطح پر ظاہر کرنے اور پنجاب ٹرانسپیرنسی اور قانون حق معلومات کے تحت عدالت کے لیے ایک پبلک انفارمیشن افسر تعینات کرنے کا فیصلہ قابل تعریف ہے۔ سیاسی نظام، بیوروکریسی، اور اداروں کو بھی اسی نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔

اس اصول کا مقصد صاف اور سیدھا سا ہے: ریاست کی جانب سے دی جانے والی تنخواہ اور مراعات عوام کے پیسے ہیں اور انہیں عوامی سطح پر ظاہر ہونا بھی چاہیے۔ افسوس کی بات ہے کہ دہائیوں سے اس اصول کو تمام اداروں کی جانب سے فراموش کیا جاتا رہا ہے اور تنخواہوں اور مراعات کی قانونی حیثیت پر ہونے والی بحث کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ، حقیقت اور عوامی جذبات کے درمیان کبھی کبھار ٹکراؤ ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس منصور علی شاہ کا معاوضہ ہو سکتا ہے کہ ایسے ملک کے چند طبقوں کے نزدیک کافی زیادہ تصور کیا جائے جہاں اب بھی بے حد غربت ہے، اور کم از کم اجرت کافی حد تک کم ہو۔

مگر اہل، پیشہ ور اور بااصول ججوں کو منصب تک کھینچ لانے کی ضرورت کو پورا کرنا بھی ضروری ہے بالکل وہسے ہی جیسے اس وقت ملازمتوں کے حوالے سے سرکاری شعبہ، نجی شعبے سے سخت مقابلہ کر رہا ہے۔ پوری دنیا کے اداروں اور سرکاری شعبوں کی طرح ایک توازن رکھا جانا نہایت ضروری ہے۔ اداروں میں صاف شفافیت کے اصول اس توازن کو برقرار رکھنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

سب سے بڑی مشکل زمین سے جڑا معاملہ ہو سکتا ہے۔ ریاست کی جانب سے سرکاری شعبوں کے ملازمین کو رعایتی داموں پر زمینیں فراہم کرنا ایک متنازع عمل ہے جس کا فوری طور پر مداوا ہونا چاہیے۔

اس حوالے سے، کبھی کبھار فوج پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے مگر یہ عمل دیگر اداروں میں بھی جاری ہے، خاص طور پر بیوروکریسی میں۔ بلاشبہ ایسی تو کوئی فہرست دستیاب نہیں ہے جس میں درج ہو کہ سرکاری شعبے میں شامل کون کون مفت اور رعایتی زمین حاصل کرنے کا حقدار ہے۔

ایک موقعے پر ریٹائرڈ بیوروکریٹس، ججز یا فوجی افسران کو رہائشی زمین جاری کرنے کے حوالے قلیل المدتی تنازعات دیکھنے میں آئے، مگر کبھی بھی مجموعی طور پر ایسی پالسی کا از سر نو جائزہ نہیں لیا گیا۔ اس کی وجوہات بھلے ہی عام سی مگر نقصاندہ ہیں۔

سرپرستانہ سوچ کا حامل سیاسی طبقہ زمین کی تقسیم کو کسی مسئلے کے طور پر نہیں دیکھتا اور شاید اپنے مفاد کے طور پر تصور کرتا ہے۔ بیوروکریسی اور عدلیہ میں شامل ایسی مراعات حاصل کرنے والوں کو یہ نظام جاری رکھنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ جبکہ ایک فوج جس کی جڑیں، زمین کے حوالے سے کالونیل دور کے عوامل اور رویوں میں پیوست ہوں وہ زمین کے اجرا کو ضروری اور نہایت قابل قدر تحفہ تصور کرتی ہے۔

تبدیلی آہستہ آہستہ آ رہی ہے مگر اس کا آنا ناگزیر ہے۔ مردم شماری سے ملک کی ڈرامائی حد تک بڑھتی آبادی کا انکشاف ہو سکتا ہے اور یہاں تک کہ محتاط اندازوں کے مطابق زمین پر دباؤ شدت اختیار چکا ہے۔ سرکاری افسران کے لیے مناسب مراعات ضروری ہیں؛ مگر حد سے زیادہ مراعات درست نہیں ہیں۔

یہ اداریہ 29 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں