کراچی کا باغ ابنِ قاسم بحریہ ٹاؤن کے حوالے

اپ ڈیٹ 31 مارچ 2017
70 ایکڑ رقبے پر قائم غیرقانونی تجاوزات ہٹانے کے بعد فروری 2007 میں 130 ایکڑ کے رقبے پر پھیلے کراچی کے باغ ابنِ قاسم کی تشکیل نو کا کام 10 ماہ کی ریکارڈ مدت میں پورا کیا گیا تھا—۔فوٹو: فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار
70 ایکڑ رقبے پر قائم غیرقانونی تجاوزات ہٹانے کے بعد فروری 2007 میں 130 ایکڑ کے رقبے پر پھیلے کراچی کے باغ ابنِ قاسم کی تشکیل نو کا کام 10 ماہ کی ریکارڈ مدت میں پورا کیا گیا تھا—۔فوٹو: فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار

سندھ حکومت نے کراچی کے مشہور باغ ابنِ قاسم کو 10 سال کے لیے ریئل اسٹیٹ کے معروف نام بحریہ ٹاؤن کے حوالے کردیا۔

صوبائی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ یہ اقدام فنڈز کو بچانے کا ذریعہ بنے گا جبکہ سماجی سرگرمیوں اور عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کے لیے نجی اداروں کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی اہم ثابت ہوگا۔

سندھ حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ پارک کے ’اختیارات‘ بحریہ ٹاؤن کو دینے کا فیصلہ متعلقہ انتظامیہ کی منظوری سے کیا گیا، ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ باغ میں کام کرنے والے عملے کی تنخواہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) ادا کرے گا۔

باغ کی ’حوالگی‘ کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سندھ حکومت نے پہلے شہری انتظامیہ سے باغ کا قبضہ حاصل کیا۔

خیال رہے کہ شہری انتظامیہ میں اکثریتی نمائندگی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوا یم) پاکستان کو حاصل ہے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق ’21 نومبر 2016 کے اعلامیے پر متعلقہ انتطامیہ کی منظوری حاصل کرتے ہوئے لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ 30 مارچ 2017 کو ہونے والے معاہدے کے تحت باغ ابن قاسم اور کلفٹن میں واقع ایکوریم کا اختیار کے ایم سی سے لیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کے حوالے کرتا ہے‘۔

دوسری جانب کراچی کے میئر وسیم اختر کا کہنا ہے پارک کی حوالگی کے معاملے پر ان سے مشاورت نہیں کی گئی۔

خیال رہے کہ باغ ابن قاسم، بحریہ آئیکون ٹاور کے قریبی علاقے میں واقع ہے، یہ آئیکون ٹاور رئیل اسٹیٹ بزنس مین ملک ریاض کا زیر تعمیر 60 منزلہ بلڈنگ کا منصوبہ ہے جو تکمیل کے بعد پاکستان کی طویل ترین عمارت ہوگی۔

تاہم سندھ کے وزیر بلدیات جام خان شورو کا کہنا ہے کہ پارک کا اختیار حاصل کرنے والے ادارے کو اسے کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت حاصل نہیں ہوگی۔

معاہدے پر ایم کیو ایم کی جانب سے سامنے آنے والے بیان میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ پارک کی ’حوالگی‘ کی آڑ میں کوئی بہت خطرناک منصوبہ جاری ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ ’یہ رپورٹس موصول ہوئی ہیں کہ باغ کا اختیار بحریہ ٹاؤن کو اس شرط پر دیا گیا ہے کہ وہ 8 ایکڑ کا رقبہ کمرشل سرگرمیوں کے لیے استعمال کرسکتے ہیں‘۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ہم ان شرائط کو عوام اور ایم کیو ایم پاکستان کے حقوق کے استحصال کے مترادف سمجھتے ہیں اور اس معاملے کو اسمبلیوں میں اٹھائیں گے، جبکہ اگر ضرورت محسوس کی گئی تو عدالت کا بھی رخ کریں گے‘۔

واضح رہے کہ 130 ایکڑ کے رقبے پر محیط اس باغ کے 70 ایکڑ حصے کو تجاوزات سے پاک کرکے 10 ماہ کی ریکارڈ مدت میں اس کی تعمیر نو کی گئی تھی جبکہ فروری 2007 میں اُس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی جانب سے افتتاح کے بعد اسے عوام کے لیے کھولا گیا تھا۔

اُس وقت کی شہری انتظامیہ نے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کی سربراہی میں منصوبے پر کام کا باقاعدہ آغاز جولائی 2005 سے کیا تھا جبکہ ساحل کنارے قائم اس بڑے منصوبے کی تکمیل پر 50 کروڑ روپے خرچ کیے گئے تھے۔

5 سال تک لوکل حکومت کی عدم موجودگی کے سبب باغ کی صورتحال خراب ہوتی چلی گئی جس سے یہاں رخ کرنے والے افراد کی تعداد بھی کم ہوتی رہی۔

صوبائی وزیر بلدیات نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت اور بحریہ ٹاؤن کے درمیان طے پانے والے نئے معاہدے کے تحت رئیل اسٹیٹ کمپنی آئندہ 10 سال کے لیے باغ کی دیکھ بھال کرے گی جسے سماجی فلاح کے منصوبوں میں کمپنی کا حصہ سمجھا جائے گا اور اس طرح بھاری تعداد میں حکومتی فنڈز بچائے جاسکیں گے۔

جام خان شورو کا مزید کہنا تھا کہ ’کئی سال پہلے یہ پیش کش کی گئی تھی کہ حکومت باغات کا اختیار ایسے اداروں کے حوالے کردے جو خود کسی مالی مفاد کے بغیر حکومتی سہولیات میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوکل باڈیز کے قوانین میں حالیہ ترامیم نے نجی اداروں تک پارکس کی حوالگی کی راہ ہموار کردی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا بھر میں یہ طریقہ عام ہے اور حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ عوام کو سستی اور صحت بخش تفریح کا موقع حاصل ہو، جبکہ یہ اقدام صرف بحریہ ٹاؤن تک محدود نہیں بلکہ کوئی بھی ادارہ جو عوام کی فلاح اور سماجی کاموں میں دلچسپی رکھتا ہو، وہ اس موقع کا فائدہ اٹھا سکتا ہےـ۔


یہ خبر 31 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں