اسلام آباد: اسلامی عسکری اتحاد کے لیے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو این او سی جاری کرنے پر ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست کی جانب سے کیے گئے اظہار خیال کے جواب میں دفتر خارجہ کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آسکا۔

خیال رہے کہ ایرانی سفیر نے پاکستانی نیوز چینل سے گفتگو میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو اسلامی عسکری اتحاد کی سربراہی کی اجازت دیئے جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق ایرانی سفیر کے اس ردعمل پر جب دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم عام طور پر میڈیا رپورٹس پر تبصرہ نہیں کرتے تاہم اس معاملے پر غور کریں گے‘۔

خیال رہے کہ گذشتہ جمعرات اپنی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران نفیس ذکریا نے اس تاثر کو مسترد کیا تھا کہ اسلامی عسکری اتحاد میں شمولیت مشرق وسطیٰ میں جاری چپلقش پر پاکستان کے حصہ نہ بننے کی پالیسی کو متاثر کرے گی۔

اپنی گذشتہ پریس بریفنگ میں انہوں نے واضح کیا تھا ’اس اتحاد کا بنیادی مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے‘۔

خیال رہے چند روز قبل ڈان نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے کہا تھا کہ برادر اسلامی ملک پاکستان کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کیے بغیر ہمارا موقف ہے کہ یہ معاملہ اسلامی ممالک کے باہمی اتحاد کو متاثر کر سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: اسلامی عسکری اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے، ایرانی سفیر

اس بات کی توقع ہمیشہ سے کی جاسکتی تھی کہ سعودی عرب کے مخالف کی حیثیت سے ایران، ریاض کی جانب سے اس اتحادی فوج کے قیام پر مطمئن نہیں ہوگا۔

اس صورتحال میں اسلام آباد کا سابق آرمی چیف کو اس اتحاد کی سربراہی کے لیے بھیجے جانے کا فیصلہ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں مسائل پیدا کرنے کو تیار ہے۔

مہدی ہنردوست واضح کرچکے ہیں کہ پاکستانی حکام نے این اوسی جاری کرنے سے قبل کئی بار ایرانی حکام سے اس معاملے پر بات کی، لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ایران اس معاملے پر مطمئن ہے یا اس فیصلے کو قبول کرتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر تحفظات حکومت پاکستان تک پہنچائے جاچکے ہیں جبکہ امید ہے کہ پاکستان کشیدگی کم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

ایرانی سفیر کا کہنا تھا کہ تہران کئی بار واضح کر چکا ہے کہ ایران اسلامی عسکری اتحاد جیسے کسی اتحاد کا حصہ نہیں بن سکتا اور نہ ہی اسے اب تک ایسی کوئی پیشکش ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ خطے میں کسی تنازع یا کشیدگی پر قابو پانے کے لیے تمام اسلامی ممالک کو متفقہ طور پر اقدامات کرنا ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں