کراچی: جون 2014 میں کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی تحقیقات اداروں کے درمیان رابطوں کے فقدان کے سبب رکاوٹ کا شکار ہے۔

حکام اور ذرائع نے ڈان کو اس بات کی تصدیق کی کہ حملے میں ہلاک ہونے والے 10 عسکریت پسندوں کی ڈی این اے رپورٹس جو انہیں 5 ماہ قبل دی جانی تھی، تاحال وصول نہیں ہوسکی۔

تحقیقات میں یہ تاخیر نہ صرف متعلقہ اداروں کے غیر پیشہ ورانہ رویے اور رابطوں میں فقدان کو واضح کرتی ہے بلکہ اس سے پاکستان کی حالیہ تاریخ کے ایک ہائی پروفائل دہشت گردی کے واقعے کی تحیقیقات کو مکمل نہ کرنے میں اداروں کی عدم دلچسپی کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

خیال رہے کہ کراچی پولیس نے اس خطرناک حملے کی تحقیقات کا دوبارہ آغاز نومبر 2016 میں اُس وقت کیا تھا جب انھیں اس بات کا علم ہوا تھا کہ حملے میں ملوث تمام دہشت گرد غیر ملکی نہیں تھے، بلکہ ان میں کچھ کراچی کے رہائشی بھی شامل تھے۔

مزید پڑھیں: کراچی ایئرپورٹ حملہ:2سال بعدملزمان کی قبرکشائی کافیصلہ

یاد رہے کہ 2014 میں کراچی ایئرپورٹ کے حج ٹرمینل پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں 20 سے زائد افراد ہلاک جبکہ 18 زخمی ہوگئے تھے۔

سیکیورٹی فورسز نے خودکار اسلحہ، دستی بم اور راکٹ لانچر سے لیس دہشت گردوں کا صفایا کیا تھا جبکہ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی۔

حکام کے مطابق 'سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں ہلاک ہونے والے نامعلوم حملہ آوروں (جن کا تعلق وسطی ایشیاء سے ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا) کی لاشوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے نمونے حاصل کرنے کے بعد انھیں دفن کردیا گیا تھا'۔

یہ بھی دیکھیں: کراچی ایئرپورٹ حملے سے متعلق نئے انکشافات

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'بعد ازاں لشکر جھنگوی (نعیم بخاری گروپ) کے دو مشتبہ دہشت گردوں اسحٰق بوبی اور عاصم کیپری کی گرفتاری کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ ہلاک ہونے والے 10 دہشت گردوں میں سے 2 کا تعلق کراچی سے تھا'۔

انہوں نے کہا کہ 'اسحٰق بوبی اور عاصم کیپری کو امجد صابری کی ہلاکت سمیت 28 ہائی پروفائل کیسز میں مبینہ شمولیت پر گرفتار کیا گیا تھا'۔

حکام کے مطابق مشتبہ شخص اسحٰق بوبی نے پولیس کو بتایا تھا کہ 'کراچی ایئرپورٹ حملے میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں میں اس کا بہنوئی ماجد اور دوست حشام بھی شامل تھا جس کے بعد پولیس نے ضلع ملیر کے جوڈیشل مجسٹریٹ سے رابطہ کیا اور ان سے حملہ آوروں کی قبرکشائی کی اجازت حاصل کی، جس کے بعد 22 نومبر 2016 کو جوڈیشل مجسٹریٹ اور پولیس کی نگرانی میں ایدھی فاؤنڈیشن کے مواچھ گوٹھ قبرستان سے 10 حملہ آوروں کی قبرکشائی کی گئی'۔

مزید پڑھیں: کراچی ایئر پورٹ پر دہشت گرد حملہ، 29 ہلاک

ان کا مزید کہنا تھا کہ لاشوں سے اکھٹے کیے گئے نمونوں کو لاہور کی فرانزک لیبارٹری بھیجا گیا، جہاں سے ایک یا دو ہفتے کے دوران ڈی این اے کی رپورٹس موصول ہوجانی تھیں، 'تاہم 4 ماہ گزرنے کے باوجود بھی یہ عمل مکمل نہ ہوسکا، پولیس اب بھی رپورٹ کے انتظار میں ہے کہ ان افراد کی شناخت کی تصدیق کرکے تحقیقات کو آگے بڑھایا جاسکے'۔

انہوں نے کہا کہ 'متعلقہ لیبارٹری کو یاددہانی بھی کرائی گئی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا، ایسے معاملات بہت اہم ہوتے ہیں اور ان میں تاخیر نہ صرف تحقیقات کی رفتار پر اثرانداز ہوتی ہے بلکہ تفتیشی عمل کو بھی متاثر کرتی ہے'۔


یہ خبر 26 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں