صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں یکے بعد دیگرے ہونے والے 2 دھماکوں کے نتیجے میں 3 سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوگئے، جبکہ ایک بم کو ناکارہ بنادیا گیا۔

بم ڈسپوزل اسکواڈ انچارج زاہد کے مطابق صبح سویرے پشاور کے علاقے ارمڑ میں واقع لڑکیوں کے ایک پرائمری اسکول کی عمارت کے قریب بم پھٹنے سے عمارت کے مین گیٹ اور باؤنڈری وال کو نقصان پہنچا تاہم کوئی طالب علم متاثر نہیں ہوا۔

دھماکے کا نشانہ بننے والا اسکول—فوٹو: حسن فرحان
دھماکے کا نشانہ بننے والا اسکول—فوٹو: حسن فرحان

بم ڈسپوزل اسکواڈ انچارج کا کہنا تھا کہ یہ ایک ٹائم ڈیوائس بم تھا، جس میں 2 کلوگرام کے قریب دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔

انچارج کے مطابق دوسرے بم کو اسکول کے نزدیک موجود جھاڑیوں میں چھپایا گیا تھا اور ابتدائی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ اس کا نشانہ پولیس اور سیکیورٹی اہلکار تھے۔

تاہم ڈھائی کلو وزنی اس ریموٹ کنٹرول بم کو بم ڈسپوزل اسکواڈ نے ناکارہ بنادیا۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور کے علاقے حیات آباد میں دھماکا، حملہ آور ہلاک

دھماکے اور بارودی مواد کی نشاندہی کے بعد اسکول کے طلبہ کو چھٹی دے دی گئی جبکہ علاقے میں سرچ آپریشن کا آغاز کردیا گیا۔

دھماکے کے بعد علاقے کو کلیئر کرالیا گیا —فوٹو: ڈان نیوز
دھماکے کے بعد علاقے کو کلیئر کرالیا گیا —فوٹو: ڈان نیوز

بعد ازاں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی ایک گاڑی سڑک کنارے نصب بم کا نشانہ بنی، جس میں 3 سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوگئے۔

حملے میں سب انسپکٹر اعتبار شاہ سمیت زخمی ہونے والے اہلکاروں کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں کے مطابق ان کی حالت بہتر بتائی گئی۔

بم ڈسپوزل اسکواڈ کے انچارج کے مطابق سی ٹی ڈی کی گاڑی کو اُس وقت نشانہ بنایا گیا جب ٹیم اسکول کے معائنے کے لیے جارہے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک ریموٹ کنٹرول بم تھا جس کا وزن 500 گرام تھا جبکہ اس میں بال بیئرنگز کا بھی استعمال کیا گیا تھا۔

دھماکے کے بعد علاقے کو کلیئر کرانے کے بعد سرچ آپریشن کا آغاز کردیا گیا۔

خیال رہے کہ ماضی میں بھی پشاور میں دہشت گردی کے واقعات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں سمیت تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

رواں سال فروری میں پشاور میں ججز کی گاڑی پر خودکش حملے کے نتیجے میں ڈرائیور جاں بحق جبکہ 4 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں بچوں سمیت 140 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے سے قبل اور بعد میں بھی ملک بھر میں اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا۔

آرمی پبلک اسکول پر حملے سے 2 ماہ قبل یکم اکتوبر 2014 کو پشاور میں ہی ایک اسکول پر دستی بم سے حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں اسکول کی خاتون ٹیچر ہلاک اور 2 بچے زخمی ہوگئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں