پاکستان سے جنگ کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ افغان حکومت ملک میں پاکستان مخالف طالبان کے خلاف کارروائی کررہی ہے اور پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔

کابل میں پاکستانی صحافیوں کے وفد سے بات چیت کے دوران عبداللہ عبداللہ نے دونوں ممالک میں اعتماد کے فقدان کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان، پاکستان سے جنگ کا خواہشمند نہیں بلکہ استحکام کے لیے پاکستان کی مدد کا طالب ہے۔

انھوں نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو حقیقت جبکہ اس کی افغانستان میں موجودگی کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔

اس موقع پر افغان چیف ایگزیکٹو نے پاکستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کا اعتراف بھی کیا لیکن ساتھ ہی افغانستان مخالف عناصر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کردیا۔

مزید پڑھیں: چمن:’افغان فورسز کی فائرنگ سے 2 ہزار خاندان متاثر ہوئے‘

عبداللہ عبداللہ نے دعوٰی کیا کہ افغانستان اچھے اور برے طالبان کی کوئی تمیز نہیں کرتا۔

افغان چیف ایگزیکٹو نے کسی کا نام لیے بغیر انکشاف کیا کہ پاکستان کے سابق سپہ سالار نے افغان طالبان کو بات چیت پر آمادہ کرنے کے لیے ایک ماہ کا وقت مانگا تھا لیکن وہ اپنا وعدہ وفا کرنے میں ناکام رہے۔

دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ نہ تو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور نہ ہی افغانستان ایسا کوئی ارادہ رکھتا ہے، لہذا پاکستان کے مفادات کے خلاف کبھی کوئی ہدایات جاری نہیں کیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان مفاہمتی عمل کے لیے پاکستان سے زیادہ کوئی ملک اہم کردار ادا نہیں کرسکتا تاہم باہمی تعلقات کی موجودہ صورتحال کچھ اطمینان بخش نہیں جبکہ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ افغانستان میں ہونے والی ہر کارروائی کا الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے۔

انھوں نے زور دیا کہ طالبان ہمارے دشمن ہیں اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے رعایت دینے کے بجائے مجبور کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: 'نواز شریف کے دورہ افغانستان کے بعد اشرف غنی آئیں گے'

عبداللہ عبداللہ نے خبردار کیا کہ دہشت گردوں کے ساتھ کوئی ہمدردی اور تعاون نہیں کرسکتے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی پارلیمانی وفد کا دورہ مثبت رہا تاہم حالیہ واقعات کے تناظر میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تعاون کا فقدان ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے بلوچستان کے علاقے چمن میں مردم شماری ٹیم کو تحفظ فراہم کرنے والے سیکیورٹی اہلکاروں پر افغان بارڈر فورسز نے فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں 2 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 12 افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہوگئے تھے۔

اس واقعے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا تھا جبکہ دونوں ممالک کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے۔

گذشتہ روز انسسپکٹر جنرل (آئی جی) فرنٹیئر کور(ایف سی) بلوچستان میجر جنرل ندیم انجم نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ پاک افغان بارڈر پر افغان فورسز کی جانب سے کی جانے والی جارحیت کا بھرپور جواب دیا گیا، جس میں 50 افغان فوجی ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔

تاہم بعد ازاں افغان حکام نے پاکستانی فورسز کے ان دعوؤں کی تردید کی۔

تبصرے (0) بند ہیں