’ فیس بک پر پوسٹ ہونے والے مواد کو سمجھنا مشکل‘

اپ ڈیٹ 25 مئ 2017
یومیہ ایک ارب سے زائد افراد فیس بک استعمال کرتے ہیں، انتظامیہ—فوٹو: رائٹرز
یومیہ ایک ارب سے زائد افراد فیس بک استعمال کرتے ہیں، انتظامیہ—فوٹو: رائٹرز

حال ہی میں فیس بک پالیسی کے دستاویزات افشاں ہونے کے بعد انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ یومیہ ایک ارب سے زائد افراد فیس بک کو استعمال کرتے ہیں، جن میں سینکڑوں لوگ مختلف زبانوں میں پوسٹیں اور شیئرنگ کرتے ہیں، جنہیں سمجھنا مشکل ہے۔

خیال رہے کہ رواں ماہ 21 مئی کو برطانوی اخبار گارڈین نے فیس بک پالیسی کے دستاویزات جاری کرتے ہوئے بتایا کہ سوشل ویب سائٹ پر خود کو نقصان پہنچانے والی لائیو ویڈیوز نشر کرنے کی اجازت ہے اور سماجی رابطے کی یہ ویب سائٹ اقدام خودکشی کرنے والے افراد کی پوسٹس کو سنسر کرنے یا انہیں سزا دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔

اخبار نے فیس بک پالیسی کے دستاویزات حاصل کرنے اور ان کا جائزہ لینے سے متعلق اپنی رپورٹ میں بتایا کہ افشاں ہونے والے دستاویزات میں سوشل ویب سائٹ انتظامیہ کی پرشدد، نفرت انگیز، دہشتگردی، فحش مواد، نسل پرستی اور دیگر معاملات سے متعلق پالیسی کا جائزہ لیا گیا۔

جائزے سے پتہ چلا کہ فیس بک ایسی ویڈیوز اور تصاویر کو ڈیلیٹ کرنے سے گریز کرتی ہے جس میں تشدد، اسقاط حمل یا خود کو نقصان پہنچایا جارہا ہو۔

دستاویزات افشاں ہونے کے بعد فیس بک کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس پر سوشل ویب سائٹ انتظامیہ نے اپنے بلاگ پوسٹ پر لکھا کہ صارفین کی جانب سے فیس بک پر پوسٹ کیے جانے والے مواد کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔

ہر ملک کے لیے ہر مسئلہ الگ اہمیت رکھتا ہے، مونیکا بکرٹ—فوٹو: رائٹرز
ہر ملک کے لیے ہر مسئلہ الگ اہمیت رکھتا ہے، مونیکا بکرٹ—فوٹو: رائٹرز

فیس بک کی ہیڈ آف گلوبل پالیسی مینجمنٹ مونیکا بکرٹ نے اپنے بلاگ کی شروعات ہی شام میں کیمیکل ہتھیاروں کے حملے کے دوران زخمی ہونے والے بچوں کی ویڈیوز کو فیس بک پر شیئر کرنے سے کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بچے بالآخر زندگی کی بازی ہار بیٹھے۔

یہ بھی پڑھیں: پرتشدد ویڈیوز کیلئے فیس بک کی پالیسی کیا؟

انہوں نے واضح کیا کہ بے شک یہ تصاویر خوفناک تھیں، اور ہم نے ایسی تصاویر کے لیے انتباہی نوٹس بھی اسکرین پر آن کیا، مگر دوسری جانب یہی تصویریں اور ویڈیوز مسئلہ شام کو دنیا کے سامنے لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے بتایا کہ فیس بک پر شیئر یا پوسٹ کیا جانے والا مواد ہر ملک کے لیے مختلف اہمیت رکھتا ہے، جیسا کہ بادشاہت پر تنقید کرنا اگر برطانیہ میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، تو دوسری جگہ ممکنہ طور پر اس معاملے پر بحث کی وجہ سے جیل کی سزا مل سکتی ہے۔

فیس بک کی ہیڈ آف گلوبل پالیسی نے تنقید کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے بتایا کہ اگر کوئی شخص تشدد کی گرافک ویڈیو اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے شیئر کرے تو اس کا فیصلہ کیسے کیا جائے؟ اور اگر کوئی خودکشی کرنے کا ناٹک یا مذاق کر رہا ہو تو اسے کس طرح سمجھا جائے کہ یہ حقیقت ہے یا مذاق؟

بلاگ پوسٹ میں انہوں نے واضح لکھا کہ دنیا بھر سے ہر روز سینکڑوں زبانوں میں مختلف پوسٹیں اور شیئرنگس کی جاتی ہیں، جنہیں بعض اوقات سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: فیس بک انتظامیہ ہر پوسٹ کو کتنے وقت تک دیکھتی ہے؟
مانیٹرنگ کے لیے مزید ماڈریٹرز کی خدمات حاصل کر رہے ہیں، مونیکا بکرٹ—فوٹو: رائٹرز
مانیٹرنگ کے لیے مزید ماڈریٹرز کی خدمات حاصل کر رہے ہیں، مونیکا بکرٹ—فوٹو: رائٹرز

مونیکا بکرٹ نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ انتظامیہ ویب سائٹ کو محفوظ بنانے کی خاطر پالیسی کو شائع نہیں کرتی، تاہم انہوں نے افشاں ہونے والی پالیسی کے مواد کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

انہوں نے واضح کیا کہ فیس بک کو ان لوگوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جو زیادہ سینسر شپ چاہتے ہیں، مگر ہم کسی کے احکامات پرنہیں بلکہ ایک بہتر قدم کی جانب عمل کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ مواد اور شیئرنگ کا نقصان ضرور ہوگا، مگر سماج میں کیا کچھ ہونا چاہئیے، یا نہیں، اس حوالے سے بحث کرنے کے لیے فیس بک ایک اچھا پلیٹ فام ہے۔

مونیکا بکرٹ نے بتایا کہ فیس بک انتظامیہ مزید 3 ہزار ماڈریٹرز کی خدمات حاصل کرے گی، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے مواد کو اچھے طریقے سے مانیٹر کیا جاسکے۔

خیال رہے کہ فیس بک کے پاس اس وقت صرف ساڑھے 4 ہزار ماڈریٹرز ہیں، جو تمام صارفین کے مواد کی مانیٹرنگ کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فیس بک کے استعمال کا سب سے بڑا خطرہ؟

فیس بک کے صارفین کی تعداد ایک ارب 94 کروڑ ہے، اگر ان ماڈریٹرز کو صارفین کے حوالے سے تقسیم کیا جائے تو ایک ماڈریٹر مجموعی پر 4 لاکھ 31 ہزار 111 فیس بک صارفین کی ہرطرح کی پوسٹوں اور مواد کو مانیٹر کرتا ہے۔

مجموعی طور پر ہر ایک ماڈریٹر فیس بک صارف کی پوسٹ یا مواد کا صرف 10 سیکنڈ تک ہی جائزہ لے پاتا ہے، ان 10 سیکنڈز میں اسے اس بات کا بھی فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ شیئر کی گئی پوسٹ پرتشدد ہے یا نہیں؟

تبصرے (0) بند ہیں