اب وہ اُنگلیاں ساکت ہوئیں، جن کی ترتیب دی ہوئی دُھنوں سے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوجایا کرتی تھیں۔

موسیقی کے منظرنامے پر ایک اور رنگ مٹ گیا۔ وجاہت عطرے بھی ہم سے بچھڑ گئے۔

پڑوسی ملک سے سونو نگم اور شیریا گھوشل جیسے گلوکار، ان کی صحت یابی کے لیے فکر مند دکھائی دیے، ہر طرح کی مدد کی پیشکش بھی کی۔ ریڈیو پاکستان، جس سے ان کی پیشہ ورانہ وابستگی تھی، نے نہ انہیں پہلے یاد کیا، جب وہ علیل تھے اور نہ ہی اب ان کو کچھ یاد ہے، بس چند سطری ایک خبر اپنی ویب سائٹ پر دے کر اپنا فرض پورا کرلیا۔

یہ واحد موسیقار تھے، جنہوں نے اپنی زندگی کے آخری برسوں تک بھی اپنے فن سے ناطہ جوڑے رکھا، مگرافسوس ایک اور فنکار معاشرے کی بے حسی اور سیاسی بد ذوقی کی نذر ہوگیا۔

مزید پڑھیں: موسیقار وجاہت عطرے چل بسے

وجاہت عطرے نے 60 کی دہائی کے آخری برسوں میں اپنے فن کی ابتدا کی اور اپنے والد ’رشید عطرے‘ سے، موسیقی کے رموز سیکھے۔ انھوں نے ریاض شاہد کی ہدایات میں بننے والی فلم ’زرقا‘ میں والد کے ہمراہ موسیقی ترتیب دی۔ والد نے جو امیدیں ان سے لگائی تھیں، وہ ان پر پورے اترے۔ ہر چند کہ جب تک وجاہت عطرے نے فلمی صنعت میں اپنے قدم جمائے، فلمی صنعت میں اردو فلموں کی بہ نسبت پنجابی فلموں کا رجحان زور پکڑ رہا تھا، لیکن وہ اپنی دھنوں سے سماعتوں کو مسحور کرتے چلے گئے۔ انہوں نے 4 دہائیوں سے بھی زیادہ کام کیا۔ اب تک وہ جو موسیقی تخلیق کررہے تھے، ان کے درد کا درماں صرف اور صرف موسیقی تھی اور انھوں نے اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا تھا۔

لاہور اب کئی دنوں تک اداس رہے گا۔

1969 میں جہاں وجاہت عطرے نے اپنے والد رشید عطرے کے ساتھ ’زرقا‘ کی موسیقی دی، وہیں انفرادی حیثیت میں بطور موسیقار اپنی پہلی فلم ’عشق نہ پچھے ذات‘ کی موسیقی بھی ترتیب دی۔

اس کے بعد میری 'غیرت تیری عزت'، 'نوکر ووہٹی دا'، 'شعلے'، 'سالا صاحب'، 'شیرخان'، 'شرارت'، 'عشق خدا'، 'محبتاں سچیاں' اور دیگر ایسی ہی کتنی مقبول فلمیں تھیں، جن کی موسیقی کو بہت پسند کیا گیا۔ میڈم نور جہاں سے لے کر علی ظفر تک، سب نے وجاہت عطرے کی بنائی ہوئی موسیقی کو گایا۔ ان کے تخلیق کیے ہوئے وہ گیت، جو بے حد مشہور ہوئے، ان میں سے چند ایک ملاحظہ کیجیے، جن کو پاکستانی فلمی صنعت اور دنیا بھر میں موجود شائقین موسیقی کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے۔

1981 میں ریلیز ہونے والی فلم ’شیرخان‘ کا گیت, تو جے میرے ہمیشہ کول رہویں

1981 میں ہی ریلیز ہونے والی فلم ’سالا صاحب‘ کا گیت، میں تے میرا دلبرجانی

1984 میں ریلیز ہونے والی فلم ’شعلے ‘کا گیت، جے میں ہوندی ڈھولنا سونے دی تویتڑی

2003 میں ریلیز ہونے والی فلم ’شرارت‘ کا گی، جگنوؤں سے بھردے آنچل

2007 میں ریلیز ہونے والی فلم ’محبتاں سچیاں‘ کا مرکزی گیت, محبتاں سچیاں

وجاہت عطرے نے اپنی پوری زندگی اس فن کے لیے دان کردی، انہوں نے ڈیڑھ سو سے زیادہ فلموں میں موسیقی دی۔ ایک ہزار سے زیادہ گیتوں کو تخلیق کیا۔ ان کے گیتوں کو یوں تو تمام پاکستانی گلوکاروں نے گایا، جن میں مہدی حسن سے میڈم نور جہاں اور علی ظفر سے راحت فتح علی خان شامل ہیں، مگر ہندوستان سے سونو نگم اورشیریا گھوشل نے بھی فلم ’محبتاں سچیاں‘ میں ان کی ترتیب کی ہوئی موسیقی کو گایا، اس کے بعد وہ دونوں ان کے مداح ہوگئے۔ فلم ’جیوا‘ سے شہرت پانے والے گلوکار ’انور رفیع ‘ اور معروف گلوکارہ ’حمیرہ ارشد‘ نے ان کی شاگردی میں گلوکاری کو اپنا پیشہ بنایا۔

دنیائے موسیقی میں ان گنت افراد ہیں، جن کو وجاہت عطرے سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ اب وہ انگلیاں ساکت ہوئیں، جن کی ترتیب دی ہوئی دُھنوں سے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوجایا کرتی تھیں.


لکھاری سے ان کی ای میل [email protected] پر رابطہ کریں

تبصرے (0) بند ہیں