پاکستان ’غیر اعلانیہ جنگ‘ مسلط کررہا ہے، افغان صدر

اپ ڈیٹ 06 جون 2017
افغان صدر اشرف غنی کابل میں امن کانفرنس کے شرکا سے خطاب کررہے ہیں — فوٹو: اے پی
افغان صدر اشرف غنی کابل میں امن کانفرنس کے شرکا سے خطاب کررہے ہیں — فوٹو: اے پی

کابل: افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان کے ملک کے خلاف ’غیر اعلانیہ جنگ‘ مسلط کر رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان کو اس بات پر کس طرح قائل کیا جاسکتا ہے کہ ایک مستحکم افغانستان ان کو اور خطے کو مدد فراہم کرے گا‘۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یہ سخت اعلان انھوں نے کابل میں افغانستان کے حوالے سے ہونے والی بین الاقوامی امن کانفرنس کے دوران کیا اور اس موقع پر گذشتہ دنوں کابل میں ہونے والے ٹرک بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 150 تک تجاوز کرنے کے حوالے سے خبر بھی دی۔

اس کانفرنس میں دنیا کے دو درجن سے زائد ممالک، نیٹو اور اقوام متحدہ کے نمائندے موجود ہیں۔

امن کانفرنس کے موقع پر کابل میں سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گیے تھے، جس میں کابل کی سڑکوں کو بکتر بند گاڑیاں موجود تھیں جبکہ اس موقع پر فضائی نگرانی بھی کی گئی۔

مزید پڑھیں: افغان دارالحکومت میں کار بم دھماکا، 90 افراد ہلاک

تاہم، افغان خبر رساں ادارے خاما کی ویب سائٹ کے مطابق سخت سیکیورٹی کے باوجود کابل میں بھاری سفارت خانے کی حدود میں ایک راکٹ آکر گرا جو دھماکے سے پھٹ گیا لیکن اس واقعے میں کسی جانی نقصان کی اطلاعات نہیں ہیں۔

افغان میڈیا نے سیکیورٹی حکام کے حوالے سے تصدیق کی کہ راکٹ کابل کے مضافات سے فائر کیا گیا تھا جو بھارتی سفارت خانے میں گرا۔

امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ’ہم امن کیلئے ایک موقع فراہم کررہے ہیں لیکن یہ کھلی پیش کش نہیں ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے، یہ آخری موقع ہے، اسے حاصل کرلیں یا نتائج کیلئے تیار رہیں‘۔

افغانستان کے حوالے سے ہونے والی امن کانفرنس کو ’کابل عمل‘ کا نام دیا گیا ہے جس کا مقصد امن کے قیام کیلئے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا ہے۔

دوسری جانب اشرف غنی کے اس اعلان پر افغان طالبان کا فوری رد عمل سامنے نہیں آیا۔

اشرف غنی نے کانفرنس میں بتایا کہ گذشتہ ہفتے کابل میں ہونے والے ٹرک بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 150ہوچکی ہے جبکہ 300 زخمیوں کو ہسپتال لایا گیا، جن میں سے بیشتر جلے ہوئے اور دھماکا خیز مواد سے متاثر تھے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: فوجی کیمپ پر حملے میں 10 اہلکار ہلاک

اس سے قبل حکام نے واقعے میں 90 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی جبکہ اشرف غنی نے ہلاکتوں میں اچانک اس قدر اضافے کی وجہ نہیں بتائی۔

خیال رہے کہ دھماکے کے بعد ایک احتجاج کے دوران دھرنا دیا گیا تھا جس کو منتشر کرنے کیلئے گذشتہ روز پولیس نے آنسو گیس فائر کیے اور واٹر کینن کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

مظاہرین افغانستان کے سیکیورٹی چیف اور قومی سلامتی کے مشیر سے استعفے کا مطالبہ کررہے تھے۔

یاد رہے کہ 2 جون 2017 کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جرمن سفارت خانے کے قریب کار بم دھماکے کے نتیجے میں 90 افراد ہلاک اور 400 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

یہ بھی یاد رہے کہ افغان طالبان نے گزشتہ ماہ اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ موسم بہار کے حملوں کا آغاز کرنے والے ہیں جس کے دوران کارروائیوں کا سلسلہ تیز کردیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: طالبان کے حملے میں 100 سے زائد افغان فوجی ہلاک و زخمی

رواں سال کے آغاز میں شمالی صوبے بلخ میں طالبان کے حملے میں 135 سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں سیکیورٹی فورسز کو ایک اور مشکل سال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

واضح رہے کہ حال ہی میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے وائٹ ہاؤس سے درخواست کی ہے کہ طالبان کے خلاف جنگ میں آنے والے تعطل کو ختم کرنے کے لیے مزید ہزاروں امریکی فوجی افغانستان بھیجے جائیں۔

دسمبر 2014 میں افغانستان سے بڑی تعداد میں غیر ملکی افواج کا انخلاء ہوا تھا تاہم یہاں مقامی فورسز کی تربیت کے لیے امریکی اور نیٹو کی کچھ فورسز کو تعینات رکھا گیا۔

اس وقت افغانستان میں 8400 امریکی فوجی جبکہ 5000 نیٹو اہلکار موجود ہیں جبکہ چھ برس قبل تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں