سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو جے آئی ٹی کے تحفظات کا تفصیلی جائزہ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کے الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں، رکاوٹوں کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے جبکہ حسین نواز کی تصویر لیک کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔

سپریم کورٹ میں حسین نواز تصویر لیک اور جے آئی ٹی ارکان کو دھمکیاں موصول ہونے کے معاملے پر کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے کی۔

حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی رپورٹ پر جواب جمع کرادیا ہے، جس پر جسٹس شیخ عظمت نے اٹارنی جنرل سے رپورٹ کا پوچھا تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے رپورٹ نہیں دیکھی۔

حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے تصویر لیک ہونے کا اعتراف کیا ہے، اسکے نتائج کیا ہونگے، اس سے بھی آگاہ کرونگا، جے آئی ٹی کا سی سی ٹی وی کیمروں پر کنٹرول نہیں، ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت زبانی تحقیقات ہوسکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: پاناما جے آئی ٹی:تحقیقات میں درپیش مسائل سے متعلق درخواست دائر

خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ ہر تحریری بیان کا الگ ریکارڈ بنایا جاتا ہے، قانون میں صرف تحریری بیان کی حد تک اجازت ہے، ویڈیو بیان کو بطور شواہد استعمال نہیں کیا جاسکتا، قانون ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں دیتا، ویڈیو لیک ہوئی تو اس کے اثرات موجودہ صورتحال سے زیادہ ہوں گے۔

جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیاکہ دفعہ 161 کا بیان بطور ٹھوس ثبوت تسلیم نہیں ہوتا، ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا جہاں ایسے بیانات کا جائزہ لیں، دفعہ 161 کا بیان صرف بیانات میں تضاد کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔

انھوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ سے بیان محفوظ بھی ہو جائے تو بیان زبانی ہی رہے گا، ویڈیو ریکارڈنگ سے بیان کی حیثیت تبدیل نہیں ہوگی، ریکارڈنگ کا مقصد صرف درست متن لینا ہے، ویڈیو ریکارڈنگ سے کوئی حقوق متاثر نہیں ہورہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ درست ریکارڈ ویڈیو ریکارڈنگ سے پہلے بھی مرتب کیا جاتا تھا جس پر جسٹس اعجاز افضل نےکہا کہ ہم 1889 میں نہیں رہ رہے، ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا کوئی بڑی بات نہیں، صرف بیان کا درست متن ریکارڈ پر لانا ہی ویڈیو ریکارڈنگ کا مقصد ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی شریف خاندان کے اثاثوں کی تفتیش کیلئے تیار

حسین نواز کے وکیل نے کہا کہ زبردستی کسی سے اقبال جرم نہیں کروایا جا سکتا، ویڈیو ریکارڈنگ میں ایسا ہی کیا جا رہا ہے، گواہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے بیان دینے کے لیے آزاد ہوتا ہے، اگر بطور ثبوت استعمال نہیں ہوسکتا تو ویڈیو کی کیا ضرورت ہے، کوئی قانون ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں دیتا، ویڈیو بنانا دراصل گواہ سے بیان پر دستخط کروانا ہے، تحریر کردہ بیان پر زبردستی دستخط نہیں کروائے جا سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر وڈیو بیان کی کوئی حیثیت نہیں تو اسے ریکارڈ کیوں کیا جا رہا ہے، کوئی ایسا آرڈر پاس نہیں ہو سکتا جو قانون کے متصادم ہو۔

جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ وڈیو ریکارڈنگ کا سکوپ محدود ہے، آپ کہنا چاہتے ہیں کہ وڈیو ریکارڈنگ تحریر کردہ بیان پر دستخط کرنے کے مترادف ہے، دفعہ 161 کا بیان صرف جرح کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: پاناما سے متعلق جے آئی ٹی میں حسین نواز کی پانچویں پیشی

جسٹس عظمت نے کہا کہ کوئی گواہ تحقیقات کے بعد عدالت میں نیا موقف نہیں اپنا سکتا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ کے دوران گواہ پر خوف رہتا ہے، قانون میں ویڈیو ریکارڈنگ کی کوئی گنجائش نہیں، میں ریکارڈنگ کے نفسیاتی پہلو کی نشاندہی کررہا ہوں۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ویڈیو بیان ہو یا تحریری، قانون کے مطابق جانچا جاتا ہے جس پر حسین نواز کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ گواہان پر بیان تبدیل کرنے کے لیے دباو ڈالا جا رہا ہے، عدالت ویڈیو ریکارڈنگ کا جائزہ لے، جائزہ لیا جائے کہ ریکارڈنگ میں ٹمپرنگ تو نہیں ہوئی، جے آئی ٹی بھی کہتی ہے کہ ویڈیو ریکارڈنگ کا عدالت جائزہ لے، اگر ویڈیو ریکارڈنگ میں ٹمپرنگ ہوئی تو اسکے کیا نتائج ہونگے۔

انھوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ویڈیو کل سوشل میڈیا پر آگئی تو کون ذمہ دار ہوگا، جے آئی ٹی اپنی حرکتوں پر خود کیسے جج بن سکتی ہے، عدالت جے آئی ٹی کو ویڈیو ریکارڈنگ سے روکے، ویڈیو کسی کے بھی ہاتھ لگ سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم 15 جون کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے

جس پر جسٹس اعجاز افضل نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرکے کہا کہ جے آئی ٹی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے، جے آئی ٹی کے تحفظات کا تفصیلی جائزہ لیں، رکاوٹوں کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی کے الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں۔

اٹارنی جنرل نے بھی ویڈیو ریکارڈنگ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت خود قانون میں گنجائش پیدا نہیں کرسکتی۔

سپریم کورٹ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔

پاناما پییر کیس اور جے آئی ٹی کی تشکیل

یاد رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔

وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز اس سے قبل جے آئی ٹی کے سامنے 3 مرتبہ جبکہ حسن نواز ایک مرتبہ پیش ہوچکے ہیں۔

جے آئی ٹی ارکان پر اعتراض کا معاملہ

یہ بھی یاد رہے کہ گذشتہ دنوں حسین نواز نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو کی گئی ایک ای میل کے ذریعے جے آئی ٹی کے کچھ افسران کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے تھے جن کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ تحقیقات پر مبینہ طور پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

تاہم بعد ازاں جے آئی ٹی کے دو ارکان کے خلاف اعتراض سے متعلق حسین نواز کی درخواست سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے مسترد کردی تھی۔

حسین نواز کی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے کہا تھا کہ نہ جے آئی ٹی کے کسی رکن کو تبدیل کریں گے نہ ہی کسی کو کام سے روکیں گے، کسی کے خلاف خدشات قابل جواز ہونا ضروری ہیں، ہم نے ہی جے آئی ٹی کے ان ممبران کو منتخب کیا تھا، اگر کسی پر مجرمانہ بدنیتی کا شبہ ہے تو اسے سامنے لائیں اسی صورت میں اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں