سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس فیصلے کی روشنی میں تشکیل پانے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنے نئے سیکریٹریٹ کا افتتاحی دورہ کیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے مطالبہ کیا کہ شریف خاندان کے اثاثوں کی انکوائری اِن کیمرہ نہ رکھی جائے۔

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر واجد ضیا کی سربراہی میں جے آئی ٹی کے ارکان کی فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے احاطے میں مختص کردہ جگہ کے دورے کی اطلاعات پر پی ٹی آئی کے ترجمان نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم جے آئی ٹی کی اِن کیمرا سماعت کو قبول نہیں کریں گے'۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جے آئی ٹی ارکان نے سیکیورٹی انتظامات اور 4 مئی کو سپریم کورٹ کی جانب سے جاری ہونے والے احکامات کی روشنی میں ٹیم کو مہیا کی جانے والی دیگر سہولیات کا جائزہ لیا۔

ٹیم کی جانب سے باقاعدہ ملاقاتوں کے سلسلے کا آغاز چند دنوں میں ہوگا جس کے بعد انھیں ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرانی ہے۔

جسٹس اعجازافضل خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے 4 مئی کو ٹیم کے 6 ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

ایف آئی اے کے ڈی جی واجد ضیا کی سربراہی میں اسٹیٹ بینک کے افسر عامر عزیز، سیکیوریٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بلال رسول، قومی احتساب بیورو بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل عرفان نعیم منگی، انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد نعمان سعید اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے بریگیڈیرکامران خورشید ٹیم میں شامل ہیں۔

مزید پڑھیں:پاناما لیکس پر جے آئی ٹی تشکیل، ارکان کا اعلان

خیال رہے کی جے آئی کی ٹشکیل 20 اپریل کو سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما یپر کیس کے فیصلے کی روشنی میں ہوئی ہے۔

سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو جے آئی ٹی کو دو کروڑ روپے جاری کرنے کی ہدایت کی تھی تاکہ وہ آزادانہ طور پر تحقیقات کرسکے۔

پی ٹی آئی کے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ 'جے آئی ٹی کی جانب سے پیر کو اپنی پہلی ملاقات کے بعد کوئی اعلامیہ جاری نہ کرنے پر ہمیں تحفظات ہیں کیونکہ اجلاس میں کیا ہوا کوئی نہیں جانتا'۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی بند دروازے کے پیچھے اجلاس کو کبھی قبول نہیں کرے گی اور خبردار کیا کہ ان کی پارٹی انویسٹی گیشن ٹیم کی کھلی سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن یا کوریج کے مطالبے کے لیے احتجاج کرسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'عوامی مفاد کی وجہ سے یہ تحفظات 20 کروڑ عوام کے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما پیپر کیس کے فیصلے کی روشنی میں جے آئی ٹی جیسے ہی کام شروع کرے گی تو وہ تحقیقات اور ثبوت کو اکھٹا کرنے کے لیے اپنے اختیارات اور مقامی یا بیرونی ماہرین کی سہولت سے بھی فائدہ اٹھائے گی۔

جے آئی ٹی کو تحقیقات سے متعلق قوانین کے تحت کوڈ آف کریمنل پروسیجر (سی آر پی سی) 1898، قومی احتساب آرڈیننس 1999 اور فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی ایکٹ 1975 میں شامل تمام اختیارات دستیاب ہوں گے۔

مزید پڑھیں: پاناما کیس: 'سپریم کورٹ جانا عمران خان کی غلطی تھی'

سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت پاکستان کے تمام انتظامی ادارے ضرورت پڑنے پر جے آئی ٹی کی معاونت کریں گے۔

سپریم کورٹ کے احکامات میں کہا گیا کہ اگر کسی بھی وقت کوئی شخص جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے اور تعاون کرنے یا زبانی یا ڈاکیومینٹری کی صورت میں معلومات دینے میں ناکام ہوا تو سپریم کورٹ کی جانب سے اس پر مناسب کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔


یہ رپورٹ 9 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں