اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کیس کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے اثاثوں کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے دوران تفتیش ثبوت کے طور پر ویڈیو ریکارڈنگ سے متعلق فیصلے کو ملتوی کردیا۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ روز جے آئی ٹی کے نمائندے کی عدالت میں غیر موجودگی کے باعث یہ فیصلہ محفوظ کیا گیا کیونکہ جے آئی ٹی کے ارکان فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں وزیراعظم نواز شریف سے تفتیش میں مصروف تھے۔

جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بدھ (14 جون) کو جے آئی ٹی اور حسین نواز کی درخواستوں پر عدالتی کارروائی کو جمعرات (15 جون) تک کے لیے ملتوی کردیا تھا، جس میں جے آئی ٹی کے دوران ویڈیو ریکارڈنگ کو ثبوت کے طور پر پیش کرنے اور جے آئی ٹی کی تحقیقات میں سرکاری اداروں کی مداخلت اور دیگر مسائل کے حوالے سے درخواستوں پر فیصلہ سنایا جانا تھا۔

گذشتہ روز جسٹس اعجاز افضل خان نے اٹارنی جنرل (اے جی) اشتر اوصاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ جے آئی ٹی ارکان آج عدالت میں موجود نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: اٹارنی جنرل کو جے آئی ٹی کے تحفظات کا جائزہ لینے کی ہدایت

خیال رہے کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت کو جے آئی ٹی کی ایک درخواست پر جواب دینا تھا، جس میں ٹیم نے عدالت کو خود کو درپیش مسائل اور تحقیقات میں سرکاری اداروں کی مداخلت کی نشاندہی کی تھی، جس پر عدالت نے اے جی کو جے آئی ٹی کے تحفظات دور کرنے اور اس حوالے سے اقدامات کے لیے تجاویز پیش کرنے کو کہا تھا۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انہیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے سامنے پیش ہونا ہے، لہذا عدالت اس کیس کی سماعت کو منگل (20 جون) تک کے لیے ملتوی کردے۔

تاہم عدالت نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے پر پیر (19 جون) کو دوبارہ بات ہوگی اور اُس روز جے آئی ٹی کی دوران تفیش ویڈیو ریکارڈنگ کے حوالے سے فیصلہ بھی سنایا جائے گا کہ ٹیم کو ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت ہوگی یا نہیں۔

اس درخواست پر فیصلہ وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی جانب سے جواب جمع کرائے جانے کے بعد محفوظ کیا گیا تھا، یہ جواب حسین نواز نے جے آئی ٹی کی تصویر لیک ہونے پر جمع کرائے گئے جواب پر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما جے آئی ٹی:تحقیقات میں درپیش مسائل سے متعلق درخواست دائر

اس حوالے سے حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ پر جواب جمع کرادیا ہے، جس پر جسٹس شیخ عظمت نے اٹارنی جنرل سے رپورٹ کا پوچھا تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے رپورٹ نہیں دیکھی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے تصویر لیک ہونے کا اعتراف کیا ہے، اس کے نتائج کیا ہوں گے، اس سے بھی آگاہ کروں گا، جے آئی ٹی کا سی سی ٹی وی کیمروں پر کنٹرول نہیں اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت زبانی تحقیقات ہوسکتی ہیں۔

خواجہ حارث نے دلائل دیئے تھے کہ ہر تحریری بیان کا الگ ریکارڈ بنایا جاتا ہے، قانون میں صرف تحریری بیان کی حد تک اجازت ہے، ویڈیو بیان کو بطور شواہد استعمال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ قانون ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں دیتا اور اگر ویڈیو لیک ہوئی تو اس کے اثرات موجودہ صورتحال سے زیادہ ہوں گے۔

حسین نواز کے وکیل نے کہا کہ زبردستی کسی سے اقبال جرم نہیں کروایا جا سکتا، ویڈیو ریکارڈنگ میں ایسا ہی کیا جا رہا ہے، گواہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے بیان دینے کے لیے آزاد ہوتا ہے، اگر بطور ثبوت استعمال نہیں ہوسکتا تو ویڈیو کی کیا ضرورت ہے؟ کوئی قانون ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں دیتا، ویڈیو بنانا دراصل گواہ سے بیان پر دستخط کروانا ہے، تحریر کردہ بیان پر زبردستی دستخط نہیں کروائے جا سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ویڈیو بیان کی کوئی حیثیت نہیں تو اسے ریکارڈ کیوں کیا جا رہا ہے، کوئی ایسا آرڈر پاس نہیں ہو سکتا جو قانون سے متصادم ہو۔

مزید پڑھیں: متعلقہ اداروں کا ریکارڈ تبدیل کیا جارہا ہے، جے آئی ٹی کا شکوہ

یاد رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔


یہ رپورٹ 16 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں