اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاناما لیکس عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ مختلف اداروں کا ریکارڈ تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی کے حوالے کرنے میں پس وپیش سے کام لیا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ میں فوٹو لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کی درخواست پر پاناما عملدرآمد بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کے دوران جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کو تصویر لیکس معاملے پر رپورٹ پیش کی، جس کا ججز نے جائزہ لیا۔

جس کے بعد جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی نے تصویر لیکس سے متعلق بیشتر الزامات مسترد کردیے ہیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا کہ ان کو جے آئی ٹی کا جواب دیکھنا چاہیے، کیا جے آئی ٹی کا جواب پڑھے بغیر جواب دینا چاہتے ہیں؟

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو اعتراض نہ ہو تو خواجہ حارث کو رپورٹ دی جاسکتی ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل رپورٹ کا جائزہ لے لیں، جس نے تصویر لیک کی اس کے خلاف کیا کارروائی کی جاسکتی ہے۔

مزید پڑھیں:پاناما جے آئی ٹی:تحقیقات میں درپیش مسائل سے متعلق درخواست دائر

ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے کہا کہ جے آئی ٹی کو رپورٹ پبلک کرنے پر اعتراض نہیں۔

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو تصویر لیک ہونے کے معاملے پر رپورٹ کا جائزہ لینے کی ہدایت کردی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی ڈیڈ لائن میں کام کررہی ہے، اگر کارروائی میں رکاوٹ ڈالی گئی تو جے آئی ٹی کیسے کام کرے گی، جے آئی ٹی نے محدود وقت کے اندر کام کرنا ہے۔

جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ تمام گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے جاتے ہیں اور جے آئی ٹی کو ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی شکایت میں سنجیدہ الزامات لگائے ہیں اور متعلقہ ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کا شکوہ کیا گیا ہے، جے آئی ٹی نے کہا ہے کہ ریکارڈ ٹیم کے حوالے کرنے میں پس و پیش سے کام لیا جا رہا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی میں بیان ریکارڈ کرنے والے سپریم کورٹ کو خط لکھتے ہیں جس کے بعد وہ خط میڈیا کو جاری کردیے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حسین نواز کی درخواست پر جے آئی ٹی سے جواب طلب

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 'اٹارنی جنرل صاحب حکومت کو یہ زیب دیتا ہے کہ جے آئی ٹی کے خط کو میڈیا کے حوالے کرے؟'

جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ 'اٹارنی جنرل آپ فیڈریشن کی نمائندگی کریں نہ کہ ایک شخص کی'۔

حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے استدعا کی کہ ویڈیو ریکارڈنگ کا بھی مسئلہ ہے، ویڈیو ریکارڈنگ بیان کا ٹرانسکرپٹ تیار کرنے کے لیے کی جاتی ہے، جے آئی ٹی میں پیش ہونے والوں کی ویڈیو ریکارڈنگ کو روکا جائے کیونکہ جے آئی ٹی کی ریکارڈنگ لیک ہوسکتی ہے۔

جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سیکشن 162 کے تحت ویڈیو ریکارڈنگ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: فوٹو لیک: تحقیقات کیلئے حسین نواز کا سپریم کورٹ سے رجوع

جبکہ جسٹس اعجاز الالحسن نے کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ کسی گواہ کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتی۔

بعدازاں عدالت نے اٹارنی جنرل اور حسین نواز کے وکلاء کو جے آئی ٹی کے جواب پر جواب الجواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 14 جون تک ملتوی کردی۔

پاناما پییر کیس اور جے آئی ٹی کی تشکیل

یاد رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔

فوٹو لیک کا معاملہ

گذشتہ دنوں وزیراعظم کے بڑے صاحبزادے حسین نواز کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر لیک ہوئی تھی جس میں انھیں ممکنہ طور پر جے آئی ٹی کے سامنے بیٹھے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

مذکورہ تصویر، جو کسی سی سی ٹی وی فوٹیج سے لیا گیا اسکرین شاٹ معلوم ہوتی ہے، پر 28 مئی کی تاریخ درج ہے، یہ وہی دن ہے جب حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پہلی مرتبہ پیش ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: حسین نوازکی فوٹو لیک: پی ٹی آئی، ن لیگ کے ایک دوسرے پر الزامات

تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم کے صاحبزادے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے احاطے میں ایک کمرے میں بیٹھے ہیں اور تفتیش کاروں کے سوالات کا سامنا کر رہے ہیں۔

مذکورہ تصویر کی 'غیر قانونی اشاعت' پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے اسے تحقیقات کے قوانین کی 'سنگین خلاف ورزی' قرار دیا۔

جبکہ حسین نواز نے 7 جون کو تصویر لیک کیے جانے کے معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

جے آئی ٹی ارکان پر اعتراض کا معاملہ

یہ بھی یاد رہے کہ حسین نواز نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو کی گئی ایک ای میل کے ذریعے جے آئی ٹی کے کچھ افسران کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے تھے جن کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ تحقیقات پر مبینہ طور پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

تاہم بعد ازاں جے آئی ٹی کے دو ارکان کے خلاف اعتراض سے متعلق حسین نواز کی درخواست سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے مسترد کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:جے آئی ٹی کے دو ارکان پر حسین نواز کا اعتراض مسترد

حسین نواز کی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے کہا تھا کہ نہ جے آئی ٹی کے کسی رکن کو تبدیل کریں گے نہ ہی کسی کو کام سے روکیں گے، کسی کے خلاف خدشات قابل جواز ہونا ضروری ہیں، ہم نے ہی جے آئی ٹی کے ان ممبران کو منتخب کیا تھا، اگر کسی پر مجرمانہ بدنیتی کا شبہ ہے تو اسے سامنے لائیں اسی صورت میں اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف کے کزن طارق شفیع اور نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر سعید احمد بھی جے آئی ٹی ارکان کی جانب سے ہراساں کیے جانے، دباؤ ڈالنے اور برا سلوک روا رکھنے کے الزامات عائد کرچکے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں