اس تصویر میں کیا راز چھپا ہے؟

18 جولائ 2017
— ٹوئٹر اسکرین شاٹ
— ٹوئٹر اسکرین شاٹ

کیا ہمارے لیے جعلی خبروں کو پکڑنا آسان ہے ؟ خاص طور پر جب ان میں تصاویر کو ایڈٹ کرکے لگایا گیا ہو؟

اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو ایسا بالکل نہیں درحقیقت ہمارے لیے اصلی اور نقلی تصاویر کی امتیاز کرنا کافی مشکل ہے۔

یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

واروک یونیورسٹی کی تحقیق کے دوران اس بات کی وضاحت کوشش کی گئی کہ گزشتہ دنوں جی ٹوئنٹی اجلاس کی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک وائرل فوٹو کو کیوں شیئر کیا جارہا ہے۔

حالانکہ وہ جعلی تصویر ہے، جی ہاں واقعی یہ جعلی تصویر ہے۔

تحقیق کے دوران 700 سے زائد افراد کو مختلف تصاویر دکھائی گئیں جن میں سے ایک اصلی اور دوسری ایڈٹ شدہ تھی۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ دس میں چار افراد جعلی یا ایڈٹ شدہ تصاویر کو شناخت کرنے سے قاصر رہے۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو جعلی تصاویر کا درست اندازہ کربھی لیتے ہیں، ان میں سے بھی صرف 45 فیصد اصل کو شناخت کرپاتے ہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ لوگ جعلی یا ایڈٹ شدہ کی شناخت میں بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں مگ وہ بھی مثالی نہیں۔

ان کے بقول اس کی وجہ سے جعلی تصاویر اور خبریں انٹرنیٹ پر تیزی سے وائرل ہوت ہیں اور روزمرہ کی زندگی میں لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے Cognitive Research: Principles and Implications میں شائع ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں