اسلام آباد: سپریم کورٹ نے دھمکی آمیز تقریر کے معاملے پر سینیٹر نہال ہاشمی کو تحری جواب اور گواہ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 21 اگست تک ملتوی کردی۔

دوسری جانب عدالت عظمیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان الیکٹرانک میڈیا اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے نہال ہاشمی کی تقریر کے پیش کردہ متن کو نامکمل قرار دے دیا۔

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران سینیٹر نہال ہاشمی، ان کے وکیل حشمت حبیب، وکیل استغاثہ اٹارنی جنرل اور پیمرا کے ڈائریکٹر جنرل حاجی آدم بطور گواہ پیش ہوئے۔

دوران سماعت نہال ہاشمی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ استغاثہ کی جانب سے تقریر کا مواد سی ڈیز کی صورت میں دیا گیا، سی ڈیز کے ساتھ متن نہیں، کیا پتا سی ڈیز میں کیا ہے؟ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ نے جو متن فائل کیا ہے اس کے علاوہ بھی کچھ نہیں ہوسکتا۔

نہال ہاشمی کے وکیل نے کہا کہ استغاثہ نے گواہوں کی فہرست جمع کرائی ہے، ہم اپنے حق میں بھی گواہ تلاش کرنا چاہتے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے چارج شیٹ کا جواب دینے کے لیےمزید وقت دینے کی استدعا کی اور مؤقف اپنایا کہ ٹی وی چینلرز نے حقائق توڑ مروڑ کے پیش کیے اور ہم نے چینلز کے خلاف بھی درخواست دے رکھی ہے۔

مزید پڑھیں: اشتعال انگیز تقریر: سینیٹر نہال ہاشمی پر فرد جرم عائد

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ نے کچھ نہیں کیا، سارا کچھ چینل والوں نے ہی کیا ہے؟

نہال ہاشمی کے وکیل حشمت حبیب نے کہا کہ رجسٹرار نے اپنے نوٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ ججز کو دھمکایا گیا، جس پر جسٹس اعجاز نے جواباً کہا کہ رجسٹرار نے نہ بھی لکھا تو مسئلہ نہیں، اس معاملے کا تو سارے پاکستان کو علم ہے۔

نہال ہاشمی کے وکیل حشمت حبیب نے دلائل میں کہا کہ آج تک عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہیں کی؟ جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت عمران خان کیس ہمارے سامنے زیر سماعت نہیں۔

وکیل حشمت حبیب نے کہا کہ یہ سب کچھ عمران خان کی وجہ سے ہوا، جس پر جسٹس اعجاز نے انہیں مخاطب کرکے استفسار کیا کہ اس میں عمران خان کا کیا تعلق ہے؟ نہال ہاشمی کے وکیل نے جواب دیا کہ 'سارا ڈرامہ تو عمران خان کا رچایا ہوا ہے'۔

جسٹس عظمت سعید نے دوران سماعت کہا کہ عدالت شہادت پر فیصلہ کرے گی اور قانون کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے، نہال ہاشمی کو دفاع کا بھرپور موقع دیں گے۔

نہال ہاشمی کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ تحریری جواب دینے کا موقع دیں معاملہ واضح ہو جائے گا، ہم عدالت کو بتانا چاہتے ہیں کہ نہال ہاشمی نے کن حالات میں تقریر کی جبکہ 27 صفحات پر مشتمل جواب پہلے ہی آچکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دھمکی آمیز تقریر: نہال ہاشمی کو مزید مہلت مل گئی

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے تقریر میں جو کچھ کہا وہ سوچے سمجھے بغیر کہا؟ نہال ہاشمی کے وکیل نے کہا کہ 'عدالت کو بتایا تھا کہ غلطی کی نشاندہی پر معافی مانگ لیں گے، اللہ تعالی مدد کرنے والا ہے'، جس پر جسٹس عظمت سعید نے جواب دیا کہ 'اللہ تعالیٰ سب کا ہے اور ہمارا بھی ہے'۔

نہال ہاشمی کے وکیل نے تحریری جواب کے لیے ایک اور موقع دینے کی استدعا کی، جس پر 3 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے نشاندہی کی کہ تحریری جواب دیا جاچکا ہے، شوکاز نوٹس پر جواب میں خامیاں ہوئیں تو مزید جواب کی اجازت دینے کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔

نہال ہاشمی کے وکیل نے کہا کہ اپنے دفاع کے لیے لوگوں کو کراچی سے لانا ہے، اتنی مہنگائی ہے ان کو لانا بھی ہے اور خرچہ بھی اٹھانا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پہلے توہین عدالت کرتے ہیں، پھر مہنگائی کا رونا روتے ہیں، بادی النظر میں نہال ہاشمی نے توہین عدالت کی ہے۔

پیمرا کی جانب سے تقریر کا متن، سی ڈیز پیش

دوسری جانب پیمرا کی جانب سے نہال ہاشمی کی تقریر کا متن اور سی ڈی پیش کی گئی۔

عدالت عظمٰی نے ڈی جی پیمرا کی سخت سرزنش کی اور نشاندہی کی کہ مکمل ٹرانسکرپٹ جمع نہیں کرائے گئے۔

جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ آپ نے حلفاً کہا تھا کہ جو کہوں گا سچ کہوں گا، جو تقریرایک چینل پر نشر ہوئی اس کا ٹرانسکرپٹ ساتھ کیوں نہیں لگایا؟ اس پر حاجی آدم نے کہا کہ 'سر میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں جو کچھ دیا ہے ایمانداری کے ساتھ دیا ہے، پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ 26 ٹی وی چینلز کی سی ڈیز اور ٹرانسکرپٹ جمع کروائی ہے'۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ ایک منصوبے کے تحت وہ سی ڈیز اور متن جمع کرایا گیا جو متعلقہ نہیں تھا، ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ عدالت کو چکر دینے سے باز آجائیں۔

عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل پر بھی برہمی کا اظہار بھی کیا، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب عدالت کے سامنے غلط بیانی کرتے ہیں۔

جسٹس عظمت سعید نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرکے کہا کہ عدالت نے آپ کو پراسیکیوٹر جنرل مقرر کیا لیکن ٹرانسکرپٹ (متن) جمع کرانے میں جعلسازی کی گئی اور عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

جسٹس عظمت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہم آپ کے گواہ ڈی جی پیمرا کو غلط بیانی پر اڈیالہ جیل بھیج دیں گے۔

تاہم بعدازاں جسٹس عظمت سعید نے اٹارنی جنرل کے حوالے سے اپنے الفاظ واپس لے لیے اور کہا کہ میرے ریمارکس غیر مناسب تھے۔

بعدازاں کیس کی سماعت 21 اگست تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر

یاد رہے کہ رواں برس 31 مئی کو سینیٹر نہال ہاشمی کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی، جس میں اپنی جذباتی تقریر کے دوران وہ دھمکی دیتے نظر آئے تھے کہ 'پاکستان کے منتخب وزیراعظم سے حساب مانگنے والوں کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی'۔

نہال ہاشمی نے جوش خطابت میں کسی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ حساب لینے والے کل ریٹائر ہوجائیں گے اور ہم ان کا یوم حساب بنادیں گے۔

سینیٹر نہال ہاشمی کی غیر ذمہ دارانہ اور دھمکی آمیز تقریر کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے نہال ہاشمی کی بنیادی پارٹی رکنیت معطل کردی تھی، جبکہ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اونگزیب نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نہال ہاشمی سے سینیٹ کی رکنیت سے بھی استعفیٰ طلب کیا تھا۔

تاہم بعدازاں نہال ہاشمی نے سینیٹ چیئرمین رضا ربانی سے اپنا استعفیٰ منظور نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے استعفیٰ دباؤ کے ماحول میں دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نہال ہاشمی تقریر کیس انسداد دہشت گردی عدالت منتقل

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی جانب سے نہال ہاشمی کا استعفیٰ منظور نہ کیے جانے اور بحیثیت سینیٹر کام جاری رکھنے کی رولنگ دیئے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی انضباطی کمیٹی نے نہال ہاشمی کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ ان سے عدلیہ کو 'دھمکیاں دینے' اور پارٹی قواعد کی مبینہ خلاف ورزی کی وضاحت طلب کی جاسکے۔

انضباطی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں متنازع تقریر پر نہال ہاشمی کو پارٹی سے نکالنے کی سفارش کی تھی، جس پر وزیراعظم نے کمیٹی کی متفقہ سفارشات کو منظور کرتے ہوئے نہال ہاشمی کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر کا نوٹس لیتے ہوئے معاملہ پاناما کیس عملدرآمد بینچ کے پاس بھیجنے کی ہدایت کی تھی۔

مزید پڑھیں: دھمکی آمیز تقریر: نہال ہاشمی کو پارٹی سے نکال دیا گیا

چیف جسٹس کی ہدایات کے مطابق خصوصی بینچ نے یکم جون کو اس کیس کی پہلی سماعت کی اور نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو لیگی سینیٹر کی تقریر سے متعلق مواد اکٹھا کرنے کی ہدایت کی تھی۔

بعدازاں 10 جولائی کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران سینیٹر نہال ہاشمی پر فرد جرم عائد کردی تھی۔

دوسری جانب گذشتہ ماہ 5 جون کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق رہنما سینیٹر نہال ہاشمی کے خلاف 'عدلیہ کو دھمکانے اور تضحیک آمیز الفاظ استعمال' کرنے پر کراچی کے بہادر آباد تھانے میں سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ

بہادر آباد تھانے کے اہلکار محمد خوشنود کے توسط سے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں نہال ہاشمی کو پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 189، 228 اور 505 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا جو سرکاری ملازمین کو دھمکانے، عدالتی کارروائی میں شامل سرکاری ملازم کے کام میں مداخلت اور عوام کی غلط رہنمائی کے ذمرے میں شامل ہیں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ 'مسلم لیگ (ن) کے یوم تکبیر کے موقع پر نہال ہاشمی نے اپنی تقریر کےدوران عدلیہ کے خلاف دھمکی و تضحیک آمیز الفاظ استعمال کیےاور عدلیہ کے فرائضی منصبی کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دی'۔

تبصرے (0) بند ہیں